
نقوشِ جاں
فسانہ نگار--- سیدہ آیت گیلانی
............................
تم نے کبھی غور کیا ہے ؟
گزرتے سال کا سسکتا ہوا آخری لمحہ ہو یا ٹوٹتے رشتے کے آخری موڑ کا الوداعی منظر بالکل ایک جیسا ہوتا ہے۔کبھی نہ رکنے والا کبھی نہ پلٹنے والا۔
یقینا تم یہی سوچو گی کہ میں کوئی نیا راگ الاپنے لگی ہوں یا پھر سے پرانے قصے کی بھول بھلیوں میں تمہیں گھسیٹ کر تمہاری ہمدردیاں سمیٹنا چاہتی ہوں توایسا نہیں ہے ۔ اب تم زندگی کے اس موڑ پر آچکی ہو جہاں وہ اپنے اصل چہرے کے ساتھ وقتافوقتا کالی بلی کی طرح تمہارا راستہ کاٹنے کی کوشش کرے گی ۔اس لیے چاہتی ہوں کہ تم حقیقت اور خواب کے درمیان موجود پلوں کی ناپختگی اور ناپائیداری سے آگاہ ہو جاؤ۔کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جو تمہارے دل میں بسنے کی خواہش مند ہیں۔میرا دل انہیں تمہاری چوکھٹ پر چھوڑ رہا ہے اب تمہاری مرضی بسنے دو یا دربدر کر دو۔میرے لیے تو ہمیشہ تمہاری مرضی ہی مقدم رہی ہے۔
ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ اگر تم نے موت کی آخری ہچکی ، چراغِ سحری کی دم توڑتی لو یا کسی رسی کے ٹوٹتے ہوئے سرے کو دیکھا ہے تو خوب سمجھ سکو گی کہ فنا کے ان لمحوں کا درد ایک جیسا ہوتا ہے۔ انکے مرنے ، مٹنے اور بچھڑنے کا یقین ہونے کے باوجو ہم کچھ نہیں کر پاتے ۔تار تار ہوتے دل کے ساتھ چپ چاپ اپنی اپنی اذیت کے گلے لگ کر ہونی کو ہونی تک دیکھتے رہتے ہیں ، خشک آنکھوں سے روتے رہتے ہیں۔اور جب ہونی ہو کر گزر جاتی ہے تو ہم بوجھل من پہ خسارہ لادے یوں گھسٹ گھسٹ کر باقی ماندہ فاصلہ طے کرتے ہیں جیسے بھرے میلے سےوہ تماشائی بچہ ، بھیڑ میں جس کا اکلوتا سکہ کھو جائے۔میلے کی رونق جاری و ساری رہتی ہے مگر اس کے لیے میلہ ختم ہو جاتا ہے۔
تم مانو یا نہ مانو میری جان!!!
زندگی بھی ایسا ہی کوئی میلا تھا اور مجھے لگتا ہے میں وہی بچہ ہوں جس کے میلے ہاتھ ایک سکہ بھی نہ سنبھال سکے ۔ـ جس کی بھیگی آنکھوں کے آنسو اس کے ہاتھوں کے پسینے میں مل کر نظر نہیں آتے ۔اپنی حسرتوں کو چہرے پر جمی مٹی میں چھپاتے ہوئے جسے بھرے میلے کی رونق چھوڑ کر خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے۔
مگر میرا میلہ میری رونق تو تم تھیں !!
میری جان !!
زندگی ہم سب کی الگ الگ انداز سے گزرتی ہے۔مگر کرداروں کے فرق اور نام کی معمولی تبدیلی سے ہٹ کردیکھیں تو کہانی عموما سب کی ایک ہی ہوتی ہے ۔مشترک ۔قدر یہ ہے کہ زندگی اور اسے بسر کرنے کا اختیار دو الگ باتیں ہیں۔ یہ خوش نصیبی کم ہی اکٹھی کسی کے حصے میں آتی دیکھی ہے۔ بلند آدرش ، ادراک اور ادب کے تقاضے جو روح کی بالیدگی اور نظر کے عرفان کی عطا ہوتے ہیں۔ایک لفظ آگہی میں سمٹ جاتے ہیں اور میری جان !!
اگر تم دل کی آنکھ سے مشاہدہ کرو گی تو تم پر منکشف ہو گا کہ آگہی عذاب ہوتی ہے۔۔۔۔اسے کہاں ثواب لکھا گیااس کا تو مجھے علم نہیں مگر جس نصاب اور جماعت سے میرا واسطہ پڑا وہاں وقت کے اک اک لمحے نے مجھے استاد بن کر یہی سبق دیا ۔
میں اس عذاب سے اپنی بستی بچا لیتی اگر مجھے وہ ہنر آتا جس میں میرے مدِ مقابل یکتا تھے۔
ایک بار کہیں پڑھا تھا کہ
"عشق میں پتھر کھائے جاتے ہیں ، اٹھاۓ نہیں "
میری زیست کی کلی !!
مجھے اعتبار اور اعتماد سے عشق تھا ۔میرا ایمان اس بات پر تھا کہا گر اعتبار اور اعتماد کا دامن چھوڑ دیا گیا تو زمین قیامت تک محبت کی بد دعاؤں کے جہنم میں جلنے لگے گی۔ مجھے محبت کی بد دعاؤں سے ڈر لگتا تھا۔
لوگ کہتے ہیں کہ محبت بد دعا نہیں دیتی ۔
جو بد دعا زبان پر نہیں آتی وہ آہ بن کر فریاد کو فلک تک لےجاتی ہے ۔
مجھے آہوں سے بھی ڈر لگتا ہے۔
اب اس بات کی کوئی تاویل ، کوئی دلیل مت مانگنا ۔تسلیم شدہ تاویلیں اور دلیلیں سب طے شدہ ہوتی ہیں مفروضوں کی طرح۔اپنے حساب اور ضرورت کے مطابق جو جمع تفریق ہوتی رہتی ہیں۔
بس تم اتنا جان لو کہ مجھے اعتبار اور اعتماد سے عشق تھا ۔سو پتھر کھائے۔۔۔بدن نیل و نیل ہوتا رہا۔ہر زخم کے بعد سوچا شاید سنگ اٹھانے والوں کو سر یاد آئے مگر وائے ناکامیء قسمت۔بلند قامت والے بے چہرہ سراپوں پر فقط اونچی دستاریں تھیں ۔سر ہوتا تو یاد آتا۔ان بے رحم آنکھوں کے بے نام انتظار کا بوجھ اٹھائے میں سالہاسال چلتی رہی جو بے نقش چہروں پر تھیں ہی نہیں ۔۔ وحشتوں کے رقص پتھروں کی برسات میں آہوں کی آواز کو چنگ و رباب کی صدائیں سمجھ کر جاری و ساری رہے۔جہاں ایسی مستی ہو وہاں شب وروز کے آنگن میں درد کی فصلوں کے انبار لگے ہوتے ہیں۔زمین کی کوکھ سے ایسی بستیوں میں زخم اگتے ہیں۔زخم ہی پھلتے پھولتے ہیں۔پھل بھی زخم اور پھول بھی زخم۔ان طمانچوں کے زخم جو بے گناہ رخساروں پر بدگمانیوں کے ہاتھوں سے پنجے ابھارتے ہیں۔بے رحم پنجے ۔اپنی ہی طے شدہ دلیلوں کے جنمے ہوئے اور اپنے ہی متعصب ضابطوں کی گود میں پلے بے رحم ، سرد پنجے ۔
میری جان میں نادم ہوں ۔!!
بہت نادم !!۔۔۔کہ میں تمہارے لیے وہ نہ کر سکی جو تمہارا حق تھا مگر میرے وقت کی ساعتیں شاھد ہیں کہ میں نے حتی المقدور کوشش کی کہ میں تمہیں اپنی قسمت کی ناگفتہ بہ برہنگی کے سائے سے بچا کر رکھ سکوں ۔میں وہ سب کرنے کی تگ و دو میں ہمہ تن مصروف رہی جس کے عوض تمہاری خوشی کے کھلونے خریدنے کے قابل ہو سکتی ۔۔۔مگر دوستی کے سارے جتن تمہاری نظر میں دشمنی کے وار جیسے رہے ۔۔خدا اور بندے کا بیر تو ممکن ہی نہیں لیکن پھر بھی رب جانے کیوں ہر بار قسمت میرا سکہ چھین کر بھاگ جاتی تھی۔
جانتی ہو ضد تمہاری گھٹی میں شامل تھی ۔بچپن میں ماؤں والا مخصوص ہتھکنڈا استعمال کرتے ہوۓ جب بھی میں نے تمہیں مارا وہ میں نے تمہیں نہیں خود کو مارا۔۔تمہارے بدن پر تو نشان لمحہ بھر ابھر کر مٹ جاتے تھے ۔مگر وہ مٹتے کہاں تھے میری روح پر ابھر جاتے تھے۔آج بھی میری روح کا بدن نیلا ہے۔میرے وہ لفظ جو تمہاری کسی بے جا خواہش کے آگے دیوار بنے تمہیں زہر لگے ۔۔مگر اثر انہوں نے میرے دل پہ کیا۔۔۔کتنی راتیں ایسی آتی ہیں جن میں ڈانٹ ڈپٹ سے آلودہ لفظوں کی گونج میری سماعتوں کے وجود پر چابک بن کر لگتی ہے۔۔۔تم بھلا کہاں مانو گی کہ تم بڑے بڑے جوتے پہن کر چلنے کی کوشش میں جب گر کر تمہیں چوٹ لگتی تھی تو میری آنکھیں جھر جھر بہنے لگتی تھیں۔میں تمھیں بڑے جوتے پہننے سے روکتی تھی تو تم چیخ چیخ کر رونا شروع کر دیتی تھی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ تم ان جوتوں کو پہن کر چلو جن کے باعث مسافت کی تکلیف بڑھ جاتی ہے۔جوتا ہمیشہ اپنے ناپ کا پہننا چاہیے۔سکھ وہی دیتا ہے جو اپنے پاؤں میں پورا ہو ۔نہ بڑا دو قدم چلنے دیتا ہے نہ چھوٹا۔چھوٹا پہنو گی تو پاؤں کو کاٹ کر رکھ دے گا۔انگلیاں چھالوں سے اٹ جائیں گی ۔تم کیا جانو آبلوں کی اذیت ؟
میں نے آبلوں کا شہر دیکھا ہے۔۔۔۔۔ہاں بڑے جوتے بھی کم تکلیف دہ نہیں ہوتے بے شک کھلے ہوتے ہیں مگر چلنا دشوار کر دیتے ہیں ۔پاؤں سے نکلتے ان کا پتا نہیں چلتا۔۔۔مجھے بھی کب پتا چلا لاعلمی میں ہی ہمارے درمیان فاصلے قد آور ہو گئے۔
اے میری زیست کی رونق!!
میں جانتی ہوں تم میری باتوں کو " ماما کی فضول باتیں " کہہ کر ہنسی میں اڑا دو گی۔تمہیں میری باتوں سے کبھی اتفاق بھی تو نہیں رہا ۔میرے سب کام تمہاری نظر میں بے کار شغل ہیں ۔ہو سکتا ہے سب ایسا ہی ہو۔
مگر ایسا بھی تو ہو سکتا ہے میری جان !!
جیسا تم سوچتی ہو ویساکچھ بھی نہ ہو۔
سنو!! زندگی کے آزار بڑے انوکھے ہیں۔
مجرم روح کی سزا یہاں بدن کاٹتا ہے ۔
جان لو!!
کہ عورت کا سب سے بڑا جرم " آگہی " ہے جس کا پہلا دروازہ اس کی روح پر کھل اسے بیدار کرتا ہے ۔۔بدن اسی آگہی کے دکھ سہتا ہے۔۔
بھلا نیند میں ڈوبے اونگھتے شہر میں بیداری کا کیا کام ۔سو میں مجرم ہوں ۔۔۔رسموں کی ، ریتوں کی رواجوں کی ۔
میری روح کے بدگمان بدن !!
تمہارے بدن کی عمارت میں میرا گوشت لگا ہے ۔جسے چھو کر میں نے خود کو محسوس کیا تم میرے بدن کا وہ پہلا لمس ہو ۔میری روح کا اولیں نقش ہو۔میری نگاہوں نے پاکیزہ ساعتوں میں جس کی تلاوت کی محبت کا وہ اسم ہو ۔تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ مجھے تم سے محبت نہیں ۔
کب تک خفا رہو گی ۔۔زندگی !! تم میرے عشق کا حاصل ہو۔وہ عشق جس میں پتھر کھائے جاتے ہیں ، اٹھائے نہیں جاتے۔
تمھیں کیسے بتاؤں۔
پتھر اب بھی برس رہے ہیں
سر کب کا سنگسار ہو چکا۔
شام نے سرمئی آنچل پھیلایا تو لوبان کی تیز مہک اور موذن کی آواز نے فسوں کو دو لخت کرکے اسے حال میں لا پٹخا۔۔۔کچی مٹی کی قبر کے اندر سویا چہرہ خاموش تھا۔۔۔اس نے چونک کر آسمان کی طرف دیکھا۔۔وہ بھی چپ تھا۔۔زمین کے کناروں نے حسرتوں کے سب سرخ آنسو آسمان کے دامن میں الٹ دیے تھے ۔۔نڈھال قدموں سے باہر نکلتے ہوئے اس نے پلٹ کر دیکھا قبروں پہ جلتے چراغوں کی لرزتی لو اسے دعا دیتے ماں کے ہاتھوں جیسی محسوس ہوئی۔
کمنٹ کریں