
بُدھا ہم کتنے عجیب ہیں۔۔۔
فرح دیبا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدھا ہم کتنے عجب ہیں ۔۔۔
زندگی کے معنی ڈھونڈتے ہیں۔۔۔
اپنے ہونے کا جواز چاہتے ہیں۔۔۔
عشق نہیں اُسکا مرتبہ تلاشتے ہیں۔۔۔
آسمان کی طرف رُخ کر کے
گھنٹوں وہی سوال اُچھالتے ہیں۔۔۔
جب کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی
اپنی بےبسی کا خراج مانگتے ہیں۔۔۔
وحشت میں سانس لیتے رہتے ہیں
لیکن خودکشی کا حوصلہ نہیں کرتے۔۔۔
گہرے دکھوں، سطحی خوشیوں کی ترتیب میں
تقدیر کو برّی کر کے، اسباب اپنے سر رکھتے ہیں
بُدھا اور کیا کہوں تم سے۔۔۔
نجانے کس ڈر میں ہم جیسے لوگ
اپنے خواب اغوا کر کے غائب کر دیتے ہیں۔۔۔
ویب سائٹ کے فورمز کو جوائن کرنے کے لئے درج ذیل لنک پہ کلک کریں ۔ شکریہ
-
کمنٹ کریں