آکاش کمارکے لڑکپن میں فلموں کا بڑا کریز تھالیکن اسکا پتا بچوں کو فلم دکھانے کا مخالف تھا۔جب مشہور فلم میکر، نراج کپور کی فلم’’بی بی‘‘ ریلیز ہوئی تو اسکی شہرت گلی گلی پہنچ گئی اور یہی پندرہ سالہ آکاش کی پہلی فلم بنی جوپتا نے اسے سنیما میں دکھائی۔فلم کی ہیروین ،نوخیز اور کٹیلی جوانی سے لبریز، ڈمپی تھی جس کے نیم عریاں اور بکنی والے مناظراسکے دل و دماغ پہ قبضہ کر کے لاشعور میں ہمیشہ کے لئے بیٹھ گئے۔ پھر پڑھائی اور بیرون ملک کے روزگار نے اسے فلموں سے بے خبر ہی کردیا۔لیکن قسمت سے کون لڑے؟۔یہی آکاش فلم لائن میں آ گیاجو دیکھتے ہی دیکتے چھا بھی گیا۔ قسمت کایہ بھی دیکھئے کہ ڈمپی اسکی ساس بن گئی جب اسکی بیٹی پنکی اورا ٓکاش کی سپر ہٹ فلمی جوڑی، زندگی کی بھی جوڑی بن گئی۔ادھر ڈمپی ،جو شادی ، پھر طلاق کے بعدایک دو گرما گرم فلمیں دے کر اب صرف خاص اورا ٓرٹ فلمیں کرنے کا فیصلہ کر بیٹھی تھی، جب ساس بنی تو سب کچھ چھوڑ کر پنکی کے یہاںآکر رہنے لگی بس فلمی پارٹیوں میں جاتی جن کا جادوا ٓخر تک چلتا ہے۔ اس دن ڈمپی بن سنور کر بلکہ چھمک چھلو بنی ڈرائینگ روم میں بیٹھی تھی کہ پنکی اپنی سولہ سنگار مکمل کرے تو دونوں ماں بیٹی ایک فلمی تقریب میں جائیں۔پاس ہی آکاش بھی اخبار پہ نظریں جمائے بیٹھا ہو ا تھا۔اچانک ڈمپی اپنے آپ کسی خیال کے آنے پر مسکرا اٹھی۔آکاش یہ دیکھ نہ سکا تھا۔اس نے آکاش کو متوجہ کر کے پوچھا: ’’تم نے اپنے بچپن،لڑکپن میں فلمیں دیکھیں؟‘‘ اس پر آکاش نے مسکرا کر ڈمپی کو عجیب انداز سے دیکھا پھر کہا:’’جی صرف ایک دو فلمیں۔اتفاق سے میری زندگی کی پہلی فلم آپ کی بھی پہلی فلم تھی۔‘‘یہ کہہ کر وہ واپس اخبار کی طرف سنجیدگی سے دیکھنے لگا۔ اس میں ،میں تو اچھی خاصی۔۔۔ٹو پیس بکنی۔۔پتہ نہیں اس فلم کو لے کر میرے بارے اب آکاش کیا سوچتا ہوگا؟ ابھی ڈمپی کچھ اور بھی سوچنے میں لگی تھی کہ پنکی آگئی۔خوشبو ماں بیٹی دونوں میں آرہی تھی لیکن مخصوص خوشبو سے آکاش نے اپنی گردن اٹھائی تو گھر کی نوکرانی کامنی کو بھی آتے دیکھا۔ ماں بیٹی ڈرائیور کے ساتھ چلی گئیں تو آکاش نے کامنی کو ایک اچھی کافی بنانے کو کہا۔ دونوں تقریب کے بعد واپس آئیں تو رات اچھی خاصی بیت چکی تھی اور آکاش بھی ابھی لوٹا نہیں تھا۔ پنکی تو کپڑے تبدیل کئے بغیربستر پر نیند بھرے انداز میں ڈھیر ہو گئی لیکن ڈمپی، جو پنکی کے ڈھیر سارے زیورات پہن چکی تھی،انھیں الماری میں رکھنے لگی ۔ایک البم ملی تو تجسس سے مجبور ہو کر اسے دیکھنے لگی ۔آکاش کی تھی جس میںفلمی تقریب،شوٹنگ،اپنی شادی اور ہنی مون کی تصوریں تھیں۔ان کے نیچے کچھ اور تصویروں کا گمان ہو ا۔انھیں نکال کر دیکھنے لگی تو چونک کر اس نے بے ساختہ پنکی کی طرف دیکھا۔وہ بے چاری تو سارے گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی۔ دراصل تمام کی تمام اسکی فلموں کی پرانی اخباری سیکسی تصویریں تھیں جو اسے ماضی کی نہیں حال کی شرم دلاسکتی تھیں۔ کیا میں آکاش کی پسندیدہ ہیروین تھی یا اس کی جوانی نے صرف بکنی، نیم عریانی،بوس و کنار اور بھیگی ساڑی کو اچک لیا ہوگا؟اب آکاش کیا سوچتا ہے؟؟ان سوالوں کے جواب آکاش ہی دے سکتا تھا ڈمپی اپنی حد میں صرف یہاں وہاں کی سوچ سکتی تھی۔بس یہ ہے کہ شرم کے ساتھ ساتھ وہ مسکرائی بھی تھی۔ خاموشی سے ساری تصویریں اور البم اپنی جگہ رکھ کر اپنی خواب گاہ میں آئی۔ یہ سچ ہے کہ نیند اسے خاصی دیر کے بعد آگئی ۔ ٭٭٭٭٭ اس دن نہ جانے کیوں ڈمپی پہلی بارپنکی اور آکاش کے باتھ روم میں نہائی تھی ۔آکاش، جو موجود نہیں تھا،اس وقت آ گیا جب ڈمپی اسی کمرے کی کشادہ بالکنی پہ کھڑے ہوکر اپنے بال سکھا رہی تھی۔ کپڑے بھیگے بدن کے ساتھ چپک گئے تھے کہ یہ اسکی عادت رہی ہے کہ نہاتے وقت تولیہ استعمال نہیں کرتی ہے ۔دونوں کی نظریں ملیں نہیں کہ ڈمپی کی پیٹھ آکاش کی طرف تھی۔وہ حیران ضرور رہا کہ نہ جانے کیوں اسکی ساس آج یہ باتھ روم استعمال کر گئی ہے!یہ بات اس نے پنکی سے بھی پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ دوسرے دن جب سب ڈرائینگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے اورکامنی کچن میں تھی کہ ڈمپی موبائل سے کسی کو فون کرنے لگی: ’’۔۔ ۔ ۔جی پہچان گئی ہوں۔۔۔۔ہیں کافی ہیں۔۔۔تو میں خود آؤنگی۔۔۔نہیں میں ضرورا ٓؤنگی۔۔‘‘اور کال منقطع کر دی۔ ’’کون ؟‘‘ پنکی نے پوچھا تو ڈمپی نے بتایاکوئی پرانی جان پہچان والی ہے جو میری پرانی ساڑیاں مانگ رہی ہے۔ آکاش کے جیسے کان کھڑے ہوگئے۔ڈمپی کی طرف دیکھے بغیر کہا۔’’اگر ایسا ہے تو اپنی کچھ ساڑیاں کامنی کو بھی دیجئے!‘‘ ڈمپی مسکرائی کہ آکاش پہلی بار اس سے کسی چیزکے کرنے کا کہہ چکا ۔ ’’ضرور دونگی،نوکرانی کو بھی۔‘‘ اس پرآکاش صرف مسکرایا جو نوکرانی کی بجائے کامنی کا نام بھی سننا چاہتا تھا۔ اس دن کے بعد سے اب ڈمپی، آکاش اور کامنی پہ اپنی حد میں نظریں بھی رکھنے لگی تو حالات نے اسے بہت کچھ بتا اور سمجھا دیا: ’’آکاش نوکرانی پہ عاشق لگتا ہے۔میری بیٹی کا اس کمینی سے کیا مقابلہ۔لیکن یہ مرد ذات توبہ توبہ!اسکے بھرے بھرے جسم پہ مرتا ہوگا آکاش ورنہ صورت اتنی قابل قبول ہر گز نہیں۔‘‘ڈمپی اب یہی سوچ سوچ کر اپنی بیٹی کے مسقبل سے پریشان ہوتی تھی۔’’ایک بات کی سمجھ نہیں آتی!‘ ڈمپی یہ بھی سوچتی،’’ کہ یہ نوکرانی کے سارے کپڑوں کے رنگ اور فیشن، لپ اسٹک ،جیولری میری پسند کی کیوں اور کیسے ہیں؟کون اسے یہ سب بتا گیا ہے۔خود تو اتنی پڑھی لکھی بھی نہیں کہ میرے بارے کسی کتاب یا اخبارات میں دیکھ سکے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آکاش۔۔۔۔؟ نہیں ایسا’’ اب‘‘ نہیں ہو سکتا۔‘‘اور شرما گئی کہ عورت بھی تو تھی۔ اگلے دن نوکرانی بغیر اطلاع دیئے غائب تھی۔گھر کے کتنے کام اوٹ پٹانگ میں کئے گئے تو کامنی کی کمی کو سب نے محسوس کیا۔پنکی اور ڈمپی نے شاید ہی کبھی گھر کا کام کیا تھا۔آکاش بھی کافی عرصے بعد اپنے لئے چائے بنا کر ڈرائینگ روم میں آیا تو اسکے ہاتھ سے ایک کانچ کا گلاس ٹوٹ گیا ۔ ڈمپی، جو پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی، یہ دیکھ کے مسکرا اٹھی اور’’ہائے رے کامنی!‘‘کہہ کر کانچ کے ٹکڑے اٹھانے لگی۔ اس کی اس ادا سے ا ٓکاش بھی مسکرا یااورصوفے پہ بیٹھ کر اپنی چائے پینے لگا ۔ایک نظر اخبار پہ بھی تھا لیکن دوسری مجبور نظر ڈمپی پہ پڑی تو کامنی پہ اسے غصہ ا ٓنے لگا۔ڈمپی کے جھکنے پر کسی بی گریڈ فلم کا ایک سیکسی منظر چل رہا تھا کہ لباس کا گریبان بے حد کھلا ہوا تھا ۔ کامنی آئی تو آکاش نے سب کے سامنے اسے اتنا ڈانٹا کہ رونے لگی جو اپنے اپائج پتی کو لینے ریلوئے اسٹیش گئی ہوئی تھی۔ ا سکا خیال تھا جلد لوٹ آئے گی لیکن ریل نے دیر لگا دی۔ رات ہوئی تو اپنے رویے سے پشیمان ہوکر آکاش کامنی کے پا س آئی۔ معافی تو مانگ لی ساتھ ہی ایک لاکھ روپے کی نقدی بھی دے دی۔ اتنے روپے دیکھ کر ’’نوکرانی‘‘ پہلے حیران ہوئی پھر الگ انداز سے مسکرا کر پیسے رکھ لئے۔آکاش بھی مسکرایا۔ ایک خوشی کا تہوار ٓگیا تو اسی نسبت آکاش سب کے لئے تحائف لایا۔ نوکرانی کے لئے ڈھیر ساری ساڑیاں ، جس میں ایک بکنی بھی تھی، وہی رنگ کی جو فلم ’’بی بی‘‘میں ڈمپی نے پہنی ہوئی تھی۔کچھ ہی دیر بعد وہ کامنی کے پاس ٓئی کہ بکنی کسی اور کے لئے لی تھی جو غلطی سے ساڑیوں میں۔ ۔۔ ۔توکامنی نے دلکشی سے مسکرا کر کہا: ’’ اب رہنے دیجئے صاحب!۔تہوار میں چیزیں واپس لینا اچھاشگن نہیںہوتا ہے چاھے غلطی سے کیوں نہ دی گئی ہو۔‘‘اس پر آکاش چپ ہو کر واپس گیا ۔ اب ڈمپی یہ دیکھتی تھی کہ کامنی اور آکاش کے تعلقات بے حد اچھے ہونے لگے ہیں لیکن شک کے سواوہ اور کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ ٭٭٭٭٭ پنکی کسی لیٹ نائٹ فلمی پارٹی میں گئی ہوئی تھی ۔آکاش شوٹنگ سے واپس آیا تو کامنی نے کھانا پیش کیا۔کچھ دیر بعد سب اپنے اپنے ٹھکانوں پر تھے بس پنکی ابھی تک نہیں آئی تھی۔آکاش کوآج نیند نہیں آ رہی تھی۔جب نیند نے بالکل ہی جواب دیا تو اپنے بچپن، لڑکپن،جوانی ، حال اور مستقبل کی یادوں اور پلانوں میں گم ہو گیا۔ماضی رنگین تھا،حال پرسکون لیکن مستقبل میں کچھ خدشات تھے۔اچانک ماضی کی کئی محرومیاں نے اچک کر اسے اداس کر دیا ۔اداسی سنبھل نہ سکی تواٹھ کر نوکرانی کے کمرے کی طرف جانے لگا۔ اتفاق سے ڈمپی نے،جوآج اپنی بے خوابی سے تنگ آکر کافی عرصے بعد ایک سگریٹ پھونکنے اپنی بالکنی میں چلی آئی تھی، آکاش کو جاتے دیکھا تو شک بھرے نداز میں اسکا پیچھا کرنے لگی ۔ آکاش، کامنی کے دروازے پر پہنچ کر دستک دینے لگا۔کچھ دیر بعد کامنی نکلی جو آکاش کے چہرے کو دیکھ کر سب کچھ سمجھ گئی: ’’اندر آئیں نا۔میرے پتی موجود نہیں ہیں اس وقت۔‘‘ ’’نہیں! بہت گھٹن ہے۔آج باہر ہی ٹھیک رہے گا۔ویسے پتی ہوتے بھی تو کیا فرق پڑتا؟‘‘اس اداسی میں بھی ا ٓکاش اپنی فطری بزلہ سنجی سے دور رہ نہ سکا۔ دونوں دروازے کے پاس ہی کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے۔ایک مرحلے پرآکاش رونے سا لگا تو کامنی نے اسے اپنے سینے پہ لگا کے بھینچ دیا۔ ’’تو یہ بات ہے!آج پکڑا ہی گیا ۔شک تو مجھے کافی دنوں سے تھا۔‘‘ غصہ کی بجائے ،بے ساختہ اور لاشعوری انداز میں،ڈمپی کے’’ تن بدن’’ میں ’’آگ سی‘‘ لگ گئی جو دور سے یہ سب دیکھ رہی تھی۔ ۔’’مجھے دونوں کی باتیں سننا چاہئیں!‘‘یہ فیصلہ کر کے ڈمپی دونوں کے ایسے قریب آئی کہ چپکے سے ان کی باتیں سن سکے۔ ’’اب اور زیادہ مت رویئے صاحب!کاش میں آپ کا مداوا ہو سکتی لیکن مجھے معلوم ہے کہ ا ٓپ کا درد کیا ہے۔ میں اسے آپ کے پاس لا بھی تو نہیں سکتی۔‘‘اور خود بھی رونے لگی۔ ’’تم انھیں لابھی دو۔میں پھر بھی کچھ نہیں کر سکتا۔میری طرح کی بے بسی کوئی اور نہ دیکھے۔منزل قریب ہے لیکن بے بسی اسے کتنا دور لے گئی ہے۔ میں تو____‘‘اور ہچکی بندھ گئی۔ ’’یہ کونسی منزل ہے؟‘‘ڈمپی سوچنے لگی،’’اب لگتا ہے کہ نوکرانی سے اسکے ایسے تعلقات نہیں ورنہ ایسے موقع پر ہر مرد، عورت سے سکون حاصل کرتا ۔ کامنی تو سب کچھ دینے کے لئے بھی تیار ہے لیکن آکاش ہی انکاری ہے۔کہیں وہ مجھ سے۔۔۔۔۔‘‘اس سوچ سے ڈمپی شرما گئی اور دونوں کو چھوڑ کوواپس اپنی خوابگاہ میں چلی آئی۔اب بہت کچھ سوچنے لگی تھی۔ایک سوچ نے تو اسے بہکا بھی دیا یہ باور کرا کے کہ وہ ابھی تک جوان اور پرکشش ہے لیکن اس سوچ کی راہ میں پنکی کی رکاوٹ بھی آگئی۔کچھ دیر بعد اسے کسی کی آہٹ سنائی دی۔’’شاید پنکی ہے یا آکاش واپس جا رہا ہوگا۔‘‘یہ سوچ کر اس نے کھڑکی سے ہال کی طرف دیکھاجہاں آکاش کھڑا ہو کر،ڈمپی کے کمرے کی طرف ایسے کشمکش بھرے انداز میں دیکھنے لگا تھا شاید وہ ڈمپی کی طرف ہی ا ٓئے۔ ڈمپی اپنی اس بے ساختہ اور لہریا سوچ سے گھبرا گئی کہ ’’آکاش‘‘ اگر ’’ابھی‘‘ اس کے پاس آجائے تو وہ خو کو روک بھی نہیں سکے گی۔۔پنکی کو پھر کیا منہ دکھائے گی؟ کہ ماں ہی۔۔’’نہیں! آکاش کوآنا نہیں چاہیے۔وہ یہاں نہیں آئے گا۔‘‘ پھر اس نے دیکھا کہ آ کاش نہ جانے کیا سوچ کر اپنے کمرے کی طرف جا رہا۔ڈمپی نے مسکرا کر اطمینان کا سانس لیا۔کچھ دیر کے بعد اسکے دل میں کچھ پنپنے لگا۔ آخروہ ایک انسان ،ایک عورت بھی تو تھی۔پھر اس کی نظر اپنی سینڈلوں پہ پڑی جن کے آگے کے ر خ باہر ہی کی طرف تھے۔ (ختم شد)
--------------------------------------
ویب سائٹ کے فورمز کو جوائن کرنے کے لئے درج ذیل لنک پہ کلک کریں ۔ شکریہ
کمنٹ کریں