
دو غزلہ
سعود عثمانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پلٹ کے چاند سیہ رات میں نہیں آیا
سو پھر وہ ہاتھ مرے ہاتھ میں نہیں آیا
وہ ناچتا ہوا جنگل، وہ جاگتا ہوا خواب
وہ مور پھر مرے باغات میں نہیں آیا
غزل ادھوری پڑی رہ گئی کہ موسم ِ ُگل
دوبارہ باغ ِطلسمات میں نہیں آیا
یہ مون سون تو پھر آبسا ہے آنکھوں میں
اور اب کی بار یہ برسات میں نہیں آیا
یہاں مکین تھے پہلے سے میرے خواہش و خواب
میں بےسبب تو خرابات میں نہیں آیا
لکیریں کھینچ گیا ہے تری طرح مجھ میں
وہ زلزلہ جو مری ذات میں نہیں آیا
یہ شعبدے نہ دکھا ، دل دِکھا مجھے ، کہ فقیر
تلاش کشف و کرامات میں نہیں آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ لطف سیرِ سماوات میں نہیں آیا
میں یوں ہی کارگۂ ذات میں نہیں آیا
سدا جو ساتھ رہا تھا ، وہی ستارۂ سبز
سفر میں آئی ہوئی رات میں نہیں آیا
میں ڈھونڈتا ہوا آیا ہوں زندگی اپنی
میں تم سے شوق ِملاقات میں نہیں آیا
نجانے کب سے اسی ایک پل کے ہاتھ میں ہوں
وہ ایک پل جوکبھی ہاتھ میں نہیں آیا
ہزار بار محبت میں تنگ آیا مگر
ہزار شکر کہ جذبات میں نہیں آیا
میں جان دے کے بھی دنیا کو تیرا عشق نہ دوں
یہ تاج ِ زر مجھےخیرات میں نہیں آیا
تمام عمر جلے ہیں کٹھالیوں میں سعود
یہ سوز عشق ہے ، اک رات میں نہیں آیا
اب آپ اپنی تحریر خود بھی کلچر بک لٹ پہ پوسٹ سکتے ہیں
پہ جائیں اور ساءین ان کریں
آپ کا کاونٹ بن جائے گا۔
اب آپ جب چاہیں اپنی تحریر لگائیں
کمنٹ کریں