
غزل جب نظم بنتی ہے(افسانہ)
اسد محمود خان
.............. ٖ
”شاعری یونہی تو نہیں ہو جاتی ناں ……!!!“۔
اُس نے چشمِ نیم وَا کے نیچے گول ہوتے ہونٹوں بیچ موجود دریچے سے دھویں کے مرغولے چھوڑتے ہوئے، سامنے بیٹھی کم عمر دوشیزہ سے کہا اور کچھ دُور تلک مرغولے پر سانسوں کا دھکا بھی رکھا جو ہوا بدوش مرغولوں کودھیرے دھیرے لے کر اُوپر اُٹھا اورکچھ ہی دیر میں آنکھوں کی اَدھ کھلی کھڑکیوں کے روشن زاویوں سے پرے ہوگیا۔
سفید رنگ کی ڈریس پینٹ پر گہرے سرخ رنگ کی لائینوں والی شرٹ میں اُس کاسراپا جاتی عمر کے بھید چھپانے کی کوشش میں تھا حالانکہ ایک بیوی، دوبیٹیاں اور ایک بیٹے کی موجودگی سارے بھید بتانے کو کافی تھی۔ اگرچہ چہرے کے نقش و نگار میں ادھیڑ عمری کی جھلک نمایاں تھی لیکن ٹریٹ بلیڈ کی اُلٹی شیو کے ڈبل کوٹ نے قدرے چکنی صورت نکالنے کی ایک ناکام سی کوشش برتی تھی۔ نین نقشے میں تانبے کی کشش بتاتی تھی کہ جوانی خاصی مصروف رہی ہو گی۔گول محرابی، ٹھوڑی سے ملحقہ ہونٹ پر موجود سیاہ رنگ کی کھڑی لکیروں پر ایمبیسی، کے ٹو اور مارون گولڈ سے سالہا سال کے بوس و کنار کی صورت ظاہر تھی جن سے جھانکتے پیلے دانتوں پر زنگ آلوددھبوں سے، سگریٹ نوشی کی کثرت آشکارا تھی۔ اُوپری لب پہ ستواں ناک ہی شاید سب سے پیاری ہوگی لیکن ناک کے آسے پاسے زردی مائل آنکھوں کے چوکھٹے میں نسوانی چہروں کے نقوش ابھی تک تازہ تھے۔ ماتھے پر گرنے والی لٹیں سلجھائی جاچکیں جبھی تو اب وہاں پر اِکا دُکا گیسو دراز نظر آتا تھا۔ بدن، دبلا مگر کمزور نہیں کہہ سکتے تھے۔
ایک کندھے پر گیسوئے ناز کے چندٹکڑے اور دوجے پر بغلی بستے کی پٹی، جس میں چند سرکاری خط، چند مشاعروں کے دعوت نامے، دو ڈبیاں سگریٹ اور ایک بوسیدہ ڈائری کی بیاض جھول رہی تھی۔
”سر! آپ بہت بڑے شاعر ہیں ……اگر آپ میری راہنمائی کریں تو میں اپنی پوری کوشش کروں گی“۔
اُس کے سامنے بیٹھی دوشیزہ نے دھویں کے مرغولوں کو پیچھے جاتی گرم سانسوں کو دیکھتے ہوئے، پورے عزم کے ساتھ کہا۔
”دیکھو! عبیرہ ……یہ بڑے جان جوکھم کا کام ہے ……تم جیسی نازک بدن لڑکی کے لیے تو شاید یہ کسی طور بھی ممکن ہی نہیں ہو پائے گا“۔
اُس نے سگریٹ بڈ کے نرم مساموں سے اپنی طلب کا دھواں اندر کھینچا اور باقی ماندہ ٹکڑے کوپاس دھری چائے کی پیالی میں بچ جانے والی چائے اندر ڈوب کر مسل ڈالا۔
”لیکن سر! شاعری تو خود ایک نزاکت ہے جہاں لفظوں کی لہک زندگی کی علامت ہوتی ہے“۔
عبیرہ، جو کسی طور بھی سامنے بیٹھے”استاد“ شاعر کی شاگردی چھوڑنے کو تیار نہیں تھی، نے لبوں کو جنبش دی۔ لمحہ بھر میں پیالی اندر حرکت کرتی اُس کی انگلیاں ٹھہریں اور ایک دوجے سے دور ہوگئیں جب کہ پوٹوں بیچ مسلتی سگریٹ پیالی کے پیندے میں بے دم ہوکر بیٹھ گئی۔ اُس نے پہلی بار آنکھ کے جانبی جھرکوں سے جھانکنے کی بجائے براہ راست چشم ِ روشن کے دریچوں سے سامنے بیٹھی عبیرہ کو دیکھا اور آہستہ سے پاس پڑی سگریٹ کی ڈبی سے نیاسگریٹ نکال کر اُس کے بدن کو دوجے ہاتھ کی انگلیوں سے سہلانے لگا۔
”نزاکت! تمہارے لیے تو غیر محرم ہوا ناں!!!“۔
اُس نے نزاکت کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے ایک شاعرانہ تبسم کے ساتھ ہونٹوں کو بھنیچتے ہوئے کہا اور پھر اگلے لمحے ہاتھ کی انگلیوں میں مچلتی سگریٹ کو چند ایک بار میز پر پٹخنے کے بعد لبوں کے بیچ داب لیا جب کہ دوجے ہاتھ میں پکڑے لائیٹرسے نکلتے شعلے نے لپک کر سگریٹ کا دہانہ پکڑ لیا۔
”جی سر!میرا مطلب ……شاعرانہ ناز کی اور ناز و اَدا سے تھا“۔
عبیرہ نے بات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے، وضاحتی جملہ گھڑا اور ہاتھ میں پکڑے کاغذوں کی نوکوں کو کترتے ہوئے دھیرے سے کہا۔ وہ اِس دوران سگریٹ سلگا کرلائیٹر میز پر واپس رکھ چکا تھا اور اَیش بنانے کی کوشش میں مسلسل سگریٹ بڈ کو ہونٹوں بیچ داب رہاتھا۔
”میں اشارہ بھی تو شاعرانہ نامحرمی کی ہی جانب تھا“۔
اُس نے سگریٹ سے لب بوسی کو ادھورا چھوڑ کر، اُوپر اُٹھتے دھویں کو دیکھا اور کہا۔
”لیکن سر! لفظ تو محرم ہوتے ہیں“۔
عبیرہ نے اپنی بات کا دفاع کرتے ہوئے بے اختیار کہا۔
”ہاں! اگر خون کا رشتہ ہو تو ……“۔
اُس نے گہرا سانس کھینچتے ہوئے جواب دیا۔
”سر! سچے اور سُچے تخلیق کار کا لفظوں کے ساتھ خون کا ہی رشتہ ہوتا ہے…… جب تخلیق تشکیل کے مراحل سے گزرتی ہے تو لامحالہ اُس کے ناتواں وجود کو لہو کی حرارت خود تخلیق کار کے وجود سے میسر آتی ہے جو اُسے زندہ تخلیق کا سراپا بخشتی ہے“۔
عبیرہ سچی اور سُچی تخلیق کی تلاش میں گھر کی دہلیز پار کر کے آئی تھی، کب یوں آسانی سے پیچھے ہٹنے والی تھی۔
”ہوں م م!!! اچھا کہہ لیتی ہو …… لیکن جب ایک زندہ شعر کے خلق کا معاملہ درپیش آئے گا تو تمہارا وجود تھر تھر کانپنے لگے گا، تب تم اپنا مادی وجود بچانے کی خاطر تخلیق کی بَلی چڑھانے پر ترجیح دوگی…… کیا تم تخلیق کے لیے اپنے وجود کا بلیدان کر پاؤ گی“۔
اُس نے عبیرہ کی باتوں پر نچلا ہونٹ لٹکاتے ہوئے ایک لمبی سانس چھوڑتے ہوئے کہا جب کہ بات کا آخری حصّہ کہتے سمے اُس کی نظریں عبیرہ کے تخلیقی اُتار چڑھاؤ کو جانچ رہی تھیں۔
”تھینک یو سر! بس اچھی تحریروں کے مطالعے نے لفظوں کی جان کاری کے ساتھ ساتھ استعمال کا حوصلہ بھی دیا، بس ہنر کا معاملہ باقی ہے جو آپ کے طفیل ممکن ہو جائے گا“۔
عبیرہ نے نظروں کے زاویوں سے بے نیازی برتتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔
”میں نے کہا ناں! …… کیا تم تخلیق کے لیے اپنے وجود کا بلیدان کر پاؤ گی“۔
اُس نے آگے جھکتے ہوئے،یک لخت عبیرہ کی آنکھوں جھانکتے ہوئے اپنے پچھلے سوال کا آخری حصّہ دوبارہ پوچھا۔ شایدعبیرہ کے تخلیقی اُتار چڑھاؤ میں جان دیکھ کرہی اُس نے اپنے سوال کو دھرایا تھا۔ اب کی بار اُس کی آنکھوں میں بے گانگت کا شائبہ تلاش کرنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔عبیرہ یوں اپنی آنکھوں میں اترنے والی نظروں کا سامنا نہ کر پائی تو دھیرے سے ساکت پلکوں کی چِک تان کر خود سے اَوٹ میں آگئی۔
”اچھا! چلو اپنا کلام سناؤ……“۔
اُس نے چِک کی اَوٹ میں گم ہوتی عبیرہ میں سے جھانکتی شاعرہ سے کہا۔
”جی ی! جی سر!!!“۔
عبیرہ چونکی اور جلدی سے ہاتھ میں تھامے پرچوں کی جانب متوجہ ہوئی جن کی چُرڑ مُرڑ اپنی بے بسی اور گزرے پلوں میں اُس کی بے چینی کی شکایت سُنا رہے تھے۔پختہ لفظوں کے ایک ہجوم سنگ یہاں تک آئی عبیرہ نے جب نظر اُٹھائی تو اکیلی تھی۔ لفظ ترتیب بدل کر تتر بتر ہو چکے تھے لیکن وہ اتنی جلدی میدان چھوڑ کر بھاگنے والی نہیں تھی جبھی اُس نے تخلیق کا وجود بچانے کے لے اپنے وجود کے بلیدان کا فیصلہ کیا اورہاتھ میں تھامی تازہ غزل، اُس کے سامنے کر دی۔
”کیا تمہیں سردی لگ رہی ہے“۔
اُس نے عبیرہ کے کانپتے جثّے کی تھر تھراہٹ کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔
یہ اُن کی تیسری یا چوتھی ملاقات تھی جس میں عبیرہ کی پہلی غزل پر باقاعدہ بات ہو رہی تھی ورنہ اب تک ہر ملاقات میں زیادہ حصّہ سگریٹ کے دھویں میں تخلیقی اتار چڑھاؤ کے بھید وں تک پہنچنے کی کوشش میں بیت چکا تھا۔ عبیرہ، نے لفظوں کے ہجوم سے چنیدہ کی تلاش کا مرحلہ، اُس کی راہنمائی میں طے کرنے کا سوچ لیا تھا مگر ابھی تک اُس کا ایک بھی شعر قبولیت کی منزل کو نہیں پہنچ پایا تھا۔
”نہیں سر! بس یونہی……“۔
عبیرہ نے اُس کے ہاتھوں کا لمس اپنے ہاتھوں پرمحسوس کیا تواُس کے نازک بدن میں جھرجھری سی آ گئی جسے اُس نے بھی محسوس کیا اور کہہ ڈالا۔
”بھئی! آج تو تمہیں خوش ہونا چاہئے کہ تمہاری اپنی غزل کی نوک پلک سنوارنے لگی ہے“۔
اُس نے عبیرہ کے ہاتھ سے کاغذ پکڑتے ہوئے ہاتھ کوبھی اپنے ہاتھ میں لیا اور قدرے آگے کو جھکتے ہوئے کہا۔ جب دھویں کا مرغولہ ہوا بدوش ہُوا تو اُس کے پیچھے لپکی بد بو دارسانس کی گرمائش کو عبیرہ نے بھی محسوس کیا جو جھر جھرا گئی۔
”دیکھو عبیرہ! اشعار میں ندرت، خیال سے آتی ہے اور خیال کی پرواز تنہا نہیں کی جاتی……وہاں پر ایک کامل راہنما درکار ہوتا ہے ورنہ خیال کے بھٹکنے کا احتمال رہتا ہے جس کی منزل خوب صورت شعر نہیں ہوتا بلکہ الفاظ کا ایسا جوڑ توڑ ہوتا ہے جسے بس تُک بندی ہی کہا جائے گا“۔
اُس نے دھیرے سے دوسرا ہاتھ بھی عبیرہ کے ہاتھ پر رکھا اوربائیں ہاتھ کی انگلیوں کی حرکت سے گُٹھ کے پاس سہلاتے ہوئے کہا۔
”جی ی سر!!!“۔
عبیرہ کا وسیع مطالعہ کم پڑ چکا تو جواب میں اختصار عود آیا۔
”یاد رہے……شاعری فقط خیال کی پرواز ہی نہیں، خیال کی وسعت کی متقاضی بھی ہوتی ہے۔ جہاں خیال کی پرواز تھم جانے کا اندیشہ ہو وہاں وسعتی دروازوں کے کھلنے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے اور یہ کام یقینا کامل راہنمائی مانگتا ہے……“۔
الفاظ جتنی تیزی سے اُس کی زبان سے پھسل رہے تھے، اُس کی انگلیاں بھی اُسی رفتار سے ہاتھ سے کلائیوں کا میچ ڈھونڈنے میں مصروف ہوئی تھیں جب کہ عبیرہ کے رونگٹھے جاگنے کے عمل سے گزر کر دوبارہ بدن سے لپٹنے کی تیاری میں تھے۔
”تم نے ٹھیک کہا تھا کہ تخلیق کار کا تخلیق سے خون کا رشتہ ہوتا ہے اور بلاشبہ ایک سچااور سُچا تخلیق کار اپنے لہو سے تخلیق کو جلا دیتا ہے جو زندگی کاسراپا لفظوں میں بیان کرتا ہے……تمہارے پاس خیال ہے،ندرت ِ خیال کی ضرورت ہے …… پرواز ہے لیکن وسعتِ پرواز چاہے“۔
اُس کی زبان اور انگلیاں مسلسل زاویے بدل بدل کر ندرتِ خیال اور وسعتِ پرواز کی جانب رواں دواں تھے۔
”یہ سب ایک تخلیق کار، ایک شاعر اپنے ساتھ لے کر پیدا نہیں ہوتا بلکہ وقت کے ساتھ سیکھتا اور نکھرتا ہے……تمہارے پاس بنیاد ی ضرورتیں پوری ہیں ……باقی ماندہ ہوسکتی ہیں اگر تم اپنے لہو سے لفظوں کو وضو دو توایک نہیں کئی اشعارسجدہ ریز ہو جائیں گے“۔
ْْٰٰؓٓؓٓ جتنا فاصلہ اُس کی انگلیوں نے ہاتھ اور کلائی پر کیا، کچھ اتنا ہی اُس کی سانسوں نے عبیرہ کے چہرے تک کر لیا تھا۔ سگریٹ کے مرغولوں سے نامانوس عبیرہ کی نامانوسیت کم ہو رہی تھی۔اُس کی آنکھوں کی لالی کا سحر تھا یاپھر شاگردی کا بھرم ……کہ عبیرہ نے آنکھ جھکا لیں اور ٹکر ٹکر ہاتھ میں تھامی غزل کے کاغذ کو دیکھ رہی تھی جہاں اُس کی انگلیاں کی حرکت میں ہاتھ کی گرفت بن آئی تھی۔
”سر! مجھے شاعری کو بہتر بنانے کے لیے کیا کرنا ہوگا“۔
عبیرہ نے کپکپاتے ہونٹوں سے سوال کیا۔
”تمہیں محبت کرنا ہوگی……“۔
اُس نے، عبیرہ کے چہرے کو بگور دیکھتے ہوئے کہا۔
”محبت……!!!“۔
عبیرہ، نے چونک کر نظریں اُوپر اُٹھائیں اور اُس کی گہری لالی والی آنکھوں میں اُتر گئی۔
”ہاں! محبت……!!!“۔
اُس نے عبیرہ کے مخمسے کو جان بوجھ کر بڑھاوا دیتے ہوئے کہا۔
”مگر میں تو کسی سے محبت نہیں کرتی اور ……اور……“۔
عبیرہ نے یوں ادھورا جواب دیا جیسے ااپنی خامی کو چھپانے کی کوشش میں ہو۔
”تو اب کرو……!!!“۔
اُس نے اپنے چہرے کو مزید عبیرہ کے چہرے کے قریب کرتے ہوئے مختصر جواب دیا۔
”کس سے……!!!“۔
شاید عبیرہ سانسوں کی گرماہٹ سے ابھی تلک ناواقف تھی جبھی تو اُس کے اپنی طرف جھکتے ہوئے چہرے سے فقط خوفزدہ تھی۔
”کسی خوب صورت و خوب رو لڑکے سے……!!!“۔
اُس نے آہستہ سے کہااور ردِ مل دیکھنے کے لیے عبیرہ کی آنکھوں میں جھانکنے کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کو دونوں ہاتھوں میں تھما لیا جنہیں عبیرہ نے کسمسانے کی ناکام سی کوشش کرتے ہوئے ڈھیلا چھوڑ دیا تھا۔
”کیا شاعری کے لیے لڑکے سے محبت ضروری ہے“۔
اُس نے ایسی بے بسی کی صورت بنا کر سوال کیا کہ جس کو دیکھ کر کوئی بھی ہنس دے لیکن اس وقت جو صورتِ حال ہوئی تھی اُس نے پورے ماحول کو ہی سنجیدہ بنا رکھا تھا۔
”نہیں ……کوئی شاعر بھی ہو سکتا ہوں“۔
یہ کہتے ہوئے اُس نے دائیں ہاتھ سے قمیص کے کالر کو سیدھا کرتے ہوئے۔
”آئی واز جسٹ کِڈنگ……شاعری بھی تمہارا معاملہ ہے اور محبت بھی ……ہاں! اگر تم شاعری میں سنجیدہ ہو تو محبت میں، میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں …… جوں جوں محبت کے اسرار کھلیں گے توں توں شاعری کے مصرعے بندھتے چلیں گے…… فیصلہ تمہا را ہے“۔
اُس نے زبان کی جملہ سازی کے ساتھ انگلیوں کی حرکت کو بھی فیصلہ کن موڑ دیتے ہوئے کہا اور دھیرے سے پیچھے کی طرف ہونے لگا۔
”سر! شاعری میری زندگی ہے اور میں شاعری کو زندہ رکھنے کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہوں حتیٰ کہ محبت بھی……!!!“۔
عبیرہ نے ہاتھ میں پکڑی غزل پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے کہا اور دوسرے ہاتھ سے اُس کے پھسلتے ہاتھ کی انگلیوں کو دبوچ لیا۔ اُس نے دوسرا ہاتھ عبیرہ کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے ایک بار پھر آگے کا سفر شروع کتے ہوئے چہرے کو اُس کے چہرے کے قریب کیا مگر اب کی بار عبیرہ کی غزالی آنکھیں اُس کی آنکھوں کی سید ھ میں تھیں اور لبوں کی لبوں سے دُوری ہوا کی تھی۔
”عبی! میں تمہاری آنکھوں میں محبت کے سمندرکا شور سُن اور ایک بہت بڑی شاعرہ ……“۔
اُس نے مزید وقت گنوانے کی بجائے محبت کی شروعات کرتے ہوئے بے تکلفی سے بات مکمل کرنا چاہی مگر لبوں کی دُوری گھٹنے سے جملہ پھسل کر ایک منہ سے دوسرے منہ میں اُترا گیا۔ عبی نے محبت کی جانب قدم بڑھائے تو مٹھیاں بھینچ جانے سے ہاتھ میں پکڑی غزل نے دم توڑ دیا، اُس کی انگلیوں کو گُٹھ کا میچ مل چکا تو انہوں نے سینے میں سوئے رازوں کو پھرولنے کا قصد کیا۔
……………………………………
”عبی! تمہاری اگلی منزل مشاعرہ ہے جس کے بعد کامیابیاں تمہارے راستے میں لوٹتی پھریں گی“۔
اُس نے دائیں پہلو میں تُڑر مُڑر غزل سی عبیرہ کے پھیلے گیسوؤں کو ایک طرف کو ہٹاتے ہوئے کہا۔ چند ہی روز میں دونوں ایک مشاعرے میں اکٹھے پہنچے تو زرد لیموی، شارٹ شرٹ پر ست رنگ چھوٹے پھولوں والی لیس نے عبیرہ کے اُوپری بدن کوسلیقے اور طریقے سے کلّاوہ مار رکھا تھا جب کہ گلے کی وی میں پھنسی صراحی کے پیندے پر نقش کمپنی ٹریڈ مارک کے ٹھپے بھی تھے۔مشاعرہ، اُسی کی صدارت میں پڑھا گیا اور جب عبیرہ مائیک کے سامنے آئی تو لو گوں نے خوب دادبھی دی۔ عبیرہ واہ واہ کی مستی میں مست جانے کب اسٹیچ سے اُتری کسی کو خبر نہیں ہوئی۔پہلے مشاعرے کی کامیابی نے دونوں کے اکٹھے پڑھنے کا جوازمضبوط کردیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ دونوں کئی مشاعروں میں ساتھ دکھائی دینے لگے۔
”سر! میری کوئی غزل ابھی تک کسی بھی ادبی پرچے میں نہیں چھپی……“۔
ایک روز عبیرہ نے، اُس سے سوال کیا۔
”فکر مند نہ ہو…… ہمارے ہاں ادبی پرچے چھپنے میں تاخیرکا شکار رہتے ہیں …… آنے والے کئی پرچوں میں تمہاری غزل شامل ہوگی“۔
اُس نے مختصر جواب دیا اور پھر چند ماہ کی مختصر مدت کے بعد ہی ایک روز عبیرہ نے سُنا:
”عبی! مبارک ہو……آج تمہاری پہلی غزل ملک کے معروف ادبی پرچے میں شائع ہوئی ہے“۔
اُس نے سگریٹ کے مرغولوں کو براہئ راست عبیرہ کے چہرے کا بوسہ لینے کے لیے دھکا دیااور بائیں بغل میں جھولتے بیگ سے ایک ضخیم پرچہ نکال کر اُس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔ عبیرہ نے مرغولوں کی چھیڑ خانی سے لطف اُٹھاتے ہوئے بے اختیار پرچے کو یوں دبوچا جیسے کسی آزاد پرندے کے فرار کا خدشہ لاحق ہو۔
”صفحہ نمبر چار سو بیس……میری غزلوں کے ساتھ ہی تمہاری غزل بھی چجپی ہوئی ہے“۔
اُس نے سگریٹ کا آخری کش لیا اور میز پر رکھی خالی ڈبیا میں مسلتے ہوئے کہا۔
”تھینک یو سو مچھ سر!……میں خوشی سے اڑنے لگی ہوں“۔
عبیرہ نے نادیدہ کی مانند پرچے کا صفحہ نمبر چار سو بیس نکالا جہاں پر اُس کی غزل چھپی تھی۔ اگلے ہی لمحے میں عبیرہ کے چہرے پر یک لخت جانے کیوں کر ایک اداسی کا سایہ آکر گزر گیا لیکن شاید کچھ ادھورے سوال وہاں پر چھوڑ گیا۔
”تمہارے پاس خیال تھا، میں نے نوک پلک سدھار کر پرواز کا سبب کیا ……تمہیں پہلی پرواز مبارک عبی……!!!“۔
اُس نے عبیرہ کے چہرے پر ابھرنے والے ادھورے سوالوں کو بھانپتے ہوئے خود سے ہی جواب دیا جسے سن کر عبیرہ کے چہرے کی رونقیں لوٹ آئیں اور وہاں پر خوشی رقصاں دکھائی دینے لگی۔
”کیا تم جھے بھی اپنی خوشی میں شریک کرو گی؟“۔
اُس نے عبہرہ کے دونوں کندھوں سے پکڑتے ہوئے سوال کیا۔
”سر! یہ خوشی تو آپ ہی کی دی ہوئی ہے“۔
عبیرہ نے ہاتھوں کی گرفت محسوس کرتے ہوئے دھیرے سے گردن اُس کی چھاتی سے ٹکاتے ہوئے کہا اور ایسا کہتے سمے اُس کی آنکھوں میں تشکر کے نمکین آنسو تیر رہے تھے۔ اُس نے جذبات میں بہتی عبیرہ کو سہارا دیا اور دونوں لان میں موجود میز سے اٹھ کر کتابوں والے کمرے میں آگئے جہاں عبیرہ کی کئی غزلیں تُڑر مُڑر کر میز کے نیچے پڑی ہوئی تھیں۔ ٹیڑھے میڑے جثّوں نے چند ایک بار پہلو بدلے تو شام، رات میں ڈھل چکی تھی۔سانسوں کی گرمائش، گھٹے تو وقت کا احساس بڑھنے لگتا ہے جبھی اُس نے شرٹ کے بٹن بندھ کیے اور عبیرہ کو اُس کی گلی کی نکڑ پر چھوڑتے ہوئے بڑی تیزی کے ساتھ اپنے گھر کی جانب بڑھ گیا۔ راتوں کو دیر سے لوٹنا، اس کے شاعرانہ مزاج کا ہی ایک حصّہ تھا جس پر کئی بار بیوی سے تکرار بھی ہوئی مگر ہر بار وہ اپنی بات منوانے میں کامیاب ہو جاتا تھا۔ آج بھی تیز قدموں سے گھر کی دہلیز کی جانب بڑھتے ہوئے، اُس کے ذہن میں بیوی کے سوالوں کا عکس موجود تھا اور دیے جانے والے جوابوں کا متن بھی تیار تھا۔
دروازے پر پہنچ کر جونہی، اُس نے دستک دی تو خلافِ توقع بیوی کا چہرہ بیٹی کے سراپے کے پیچھے موجود ملا۔ قبل ازیں کہ وہ کوئی سوال کرے یا جواب سنے، اُس کی بیٹی نے دونوں ہاتھوں کوپکڑے ایک رسالے کو لہراتے ہوئے کہا:
”بابا! جانتے ہیں میں اتنی دیر سے آپ کے انتظار میں جاگ رہی تھی“۔
”وہ کیوں ……کیا ہماری بٹیا کو نیند نہیں آرہی یا ماں نے سونے ہی نہیں دیا“۔
اُس نے محبت کے خمار کو لمحہ بھر میں جھٹک کر سوال پہ سوال کیا۔
”نہیں! بابا!! دراصل آج میں بہت شیادہ خوش ہوں“۔
اُس کی بیٹی نے خوشی میں چہکتے ہوئے کہا۔
”بھئی! ہم بھی تو سنیں …… آخر ایسی کون سی خوشی ہے“۔
اُس نے بیٹی کی خوشی کو محسوس کرتے ہوئے ایک بار پھر سے سوال کیا۔
”بابا! مجھے مبارک دیں آج میری غزل معروف ادبی رسالے میں آپ کی غزلوں کے ساتھ چھپی ہے“۔
اُس کی بیٹی نے جواب دیتے ہوئے ہاتھوں میں لہراتا وہ پرچہ اُس کی جانب بڑھایا۔ ہوا میں بلند ہوئے لفظ، اُس کے کانوں سے ٹکرا کر یوں بکھرے جیسے ونڈ اسکرین جھٹکا کھاکر کرچیوں میں تقسیم ہو تی ہے، جب کہ اُس کی آنکھوں کے سامنے وہی ادبی پرچہ لہرا رہا تھا جس میں عبیرہ کی بھی غزل چھپی تھی۔
اب آپ اپنی تحریر خود بھی کلچر بک لٹ پہ پوسٹ سکتے ہیں
پہ جائیں اور ساءین ان کریں
آپ کا کاونٹ بن جائے گا۔
اب آپ جب چاہیں اپنی تحریر لگائیں
کمنٹ کریں