
افسانے
حاصلِ سیرِ جہاں کچھ نہیں ، حیرانی ہے

کئی راتوں تک آنکھوں نے سوائے آنسوئوں کے کچھ نہیں دیکھا اور جب آنسو خشک ہوئے تو دیدوں میں یہ منظر تیر گیا ؎
بھٹک رہی تھی جو کشتی وہ غرقِ آب ہوئی
چڑھا ہوا تھا جو دریا اتر گیا یارو
محرومی و محزونی کے اس منظر نے ماضی کے بے شمار منظر ابھار دیے۔ اچھے دنوں کے منظر ، اچھی محفلوں کے منظر، اچھی ساعتوں کے منظر ۔اچھی صحبتوں کے منظر۔ آنکھوں میں ایک سرخ رو شخص مثلِ منارۂ نور آبسا۔ یہ وہ شخص تھا جس کے مثبت رویہ کی روشنی میں کتنے ہی بیڑے پار ہو چکے تھے ۔ کتنی ہی کشتیاں کنارے لگ چکی تھیں ۔ یہ شخص وہ تھا جو ایک ایک شخص کی پریشانی ،سینے کے جلن، سانسوں کی گھٹن، آنکھوںکے طوفان ، ذہنوں کے ہیجان ، چہروں کی بے چہرگی ، دلوں کی اداسی ، مایوسی ، افسردگی ، تنہائی ، رشتوں کی شکست و ریخت ، قدروں کے زوال، جذبوں کی سردمہری ، خوابوں کی فراوانی ، تعبیر وں پر حیرانی ، آنکھوں کی اشک شوئی ، زمانے کی بے حسی ، گویا پوری بیسویں صدی کے درد و کرب کو اپنے سینے اور شعروں میں اتارکر اپنے دور کا مغنی بن چکا تھا ۔جس نے اپنی تخلیقی تپش، فنکارانہ بصیرت، اور مکاشفانہ ریاضت سے ذات و کائنات کی تسخیر کے لیے ’اسمِ ا عظم‘ دریافت کر لیا تھا اور جو ’ساتواں در‘اور ’خواب کا دربند ‘ کھولنے میں کامیاب ہوچکا تھا ، اوراپنے اسمِ اعظم سے ساتواں در کھول کرگیان پیٹھ کے مسندِ اعزاز پر متمکن ہو چُکا تھا لیکن بلندیوں کی تسخیر کے باوجود بوریا نشین دکھائی دے رہا تھا، اپنے قد سے بے نیاز ، احساسِ برتری کے بھاری بھائوں سے آزاد، ہشّاش بشّاش ، نہایت نارمل ، حد درجہ سادہ اور انتہائی سہج جیسے کوئی مخلص دوست جیسے کوئی ہم عمر بھائی، جیسے کوئی ہم خیال کلاس فیلو ، جیسے کوئی روشن خیال اور شفیق باپ، اس شخص کے دل سے نکلے ہوئے کلمات بھی کانوں میں گونجنے لگے :
’’میں بہت کم لوگوں کو عزیز رکھتا ہوں۔ ان میں سے آپ بھی ہیں۔ آپ جب چاہیں میرے گھر آسکتے ہیں، میرا دروازہ آپ کے لیے ہمیشہ کھلا رہے گا۔‘‘
________
’’جاوید حبیب کے یونین کا الیکشن ہارنے کا مجھے بے حد افسو س ہے اس لیے کہ وہ جیت جاتے تو غضنفر کا کام ہوجاتا۔‘‘
________
’’غضنفر تم صحیح کہہ رہے ہو کہ کام کے لیے جس کو فون کیا جارہا ہے وہ منع بھی کرسکتا ہے مگر یہ بھی تو ممکن ہے کہ میرے فون کرنے سے کسی کا کام بن جائے‘‘۔
________
’’غضنفر کے لیے پیگ نہیں بنے گا ۔ آج ان سے صرف شاعری سنی جائے گی او رجلد ہی انھیں رخصت بھی کردیا جائے گا۔اس لیے کہ ان کی نئی نئی شادی ہوئی ہے، گھر انھیں وقت سے اور ہوش و حواس میں جانا چاہیے‘‘
________
’’مانا ہمارے وہ مخالف ہیں مگر آپ کے تو وہ بھی استاد ہیں ۔ آپ کو ان کے پاس بھی جانا چاہیے اور ان کا احترام بھی ویسا ہی کرنا چاہیے جیسا کہ آپ میرا کرتے ہیں۔‘‘
________
’’آپ شعبہ میں میرے پاس نہ بیٹھا کیجیے، اس سے آپ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘
________
’’خورشید صاحب(خورشیدالا سلام ، صدر شعبۂ اردو ، علی گڑھ)راضی تو نہیں ہوئے مگر آپ گھبرائیے نہیں ، میں اپنے غصّے اور محبت دونوں کی آگ ان کے کمرے میں چھوڑ آیاہوں۔ یہ آگ ضرور اپنا اثر دکھائے گی۔آپ دیکھیے گا‘‘۔
________
’’بیٹے ! نہ خود بیوی پر حاوی ہونا اور نہ بیوی کو اپنے اوپر حاوی ہونے دینا۔‘‘
________
’’سروس جوائن کرنے جارہے ہو تو ایک بات کا خیال رکھنا‘ وقت پرجانا اور پورے وقت تک آفس میں رہنا۔‘‘
________
’’ بشریٰ سے کہنا کہ وہ نجمہ سے بھی ملا کریں ۔ ‘‘
________
’’نیرج بہت اکیلے پڑ گئے ہیں، چلوآج ان سے مل آئیں ‘‘
________
’’وارث علوی نے تمہارے تئیں منفی رویہ اس لیے نہیں اپنایا کہ وہ تمہیں پسند نہیں کرتے بلکہ اس لیے اپنایا کہ ان دنوں وہ مجھ سے خفا ہیں ‘‘۔
________
’’خوش رہنا اور رکھنا چاہتے ہو تو دوسروں کے مثبت پہلوئوں کو ہی نگاہ میں رکھّو‘‘۔
________
’’عبید صدیقی مجھے اس لیے بھی پسند ہیں کہ وہ کسی ضرورت مند کی خاموشی سے حاجت روائی کرتے ہیں‘‘۔
________
’’وہ صاحب بھی مجھے عزیز ہیں اور انہیں پسند بھی بہت کرتا ہوں مگر تم انھیں اپنی ٹیم میں شامل نہ کرنا، وہ اپنا کھیل بنانے کے چکر میں تمہارا کھیل بگاڑ دیں گے‘‘۔
________
’’زند گی میں کا میابی کے لیے اعتدال اور توازن کا ہونا ضروری ہے۔ یہ ہنر ابوالکلام قاسمی سے سیکھنا چاہیے‘‘۔
________
’’سرورالہدیٰ خواہ کسی بھی گروپ کے ہوں ،میں توانھیں اس لیے پسند کرتاہوں کہ وہ لائق ہیں ‘‘۔
________
’’غضنفر !اپنے محسن کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ تم نے نارنگ صاحب کا خاکہ لکھ کر بہت اچھا کیا‘‘۔
________
’’ تمہارا بیٹا کامران گاتا اور گٹار بجاتا ہے، یہ جان کر بہت اچھا لگا ۔زندگی میں پڑھائی کے علاوہ ثقافتی سرگرمی بھی ضروری ہے‘‘۔
میرے کانوں میں گونجنے والے یہ ارشادات آنکھوں میں کسی پیرو مرشد کی شبیہ اُبھاررہے تھے۔ایک ایسے پیر کی جو اپنے مریدوں کو ایسے ایسے اقوالِ زریں سے نوازتا ہے کہ جن سے تاریک راہیں دمک اٹھتی ہیں ۔ سفر ٹھوکروں کی زد سے بچ جاتا ہے صعوبتیں سبک ہوجاتی ہیں اور زندگی بہ آسانی منزل آشنا ہوجاتی ہے ۔
ہمارا یہ پیر جو خلوت میں کنور اخلاق محمد خاں اور جلوت میں شہر یار کے نام سے جانا جاتا ہے ، ہم پر اپنے زریں اقوال کی بارش کرتا ، ہمارے راستے میں اپنی ذات وصفات کے رنگ و نور اور خوشبو بکھیرتا اور دنیا کو اپنے کمالات کا جوہر دکھاتا اور یہ درس دیتا ہوا ؎
سفر یہ ختم ہو جائے ، نہیں ایسا نہیں ہوگا
بہت ہوگا توان اشجار کا سایہ نہیں ہوگا
شانِ بے نیازی سے آگے بڑھتا رہا مگر ایک دن دنیا کو سفرِ مدام کا درس دینے والا خود فنا پذیر ہوگیا۔ سر پر سایۂ اشجار کے باوجود اس کا سفر ختم ہوگیا اور اس کے اس شعر ؎
ہمارے غم میں ناحق دوست دبلے ہوتے جاتے ہیں
مرض جو ہم کو لاحق ہے ، کبھی اچھا نہیں ہوگا
کااستعاراتی معنی اس کا ذاتی معنی بن گیااور اس کا یہ خیا ل ؎
تھکنا ہے ، ٹھہرنا ہے ، بہر حال سبھی کو
جی اپنا بھی بھر جائے گا ایک روز سفر سے
خود اس کے لیے بھی حقیقت کے سانچے میں ڈھل گیا۔
شہر یار نے اپنی زندگی کے سفر میں جہانِ آب و گل کی ایسی سیر کی ہے اور اتنے رنگ و نور بکھیر ے ہیں کہ اگر سیرِ جہاں کا حاصل اور بکھرے ہوئے رنگ و نور کو سمیٹا جائے تو ایک نگار خانہ بن سکتا ہے۔ ایسا نگار خانہ جس میں حیات وکائنات کی بے شمار خوش کن اور غم ناک تصویریں بولتی نظر آتی ہیں ؎
دنیا نے ہر محاذ پہ مجھ کو شکست دی یہ کم نہیں کہ خواب کا پرچم نگوں نہ تھا
سورج لہو لہان ہے ہر شام دیکھ لے اے زنددگی غرور کا انجام دیکھ لے
گئے تھے لوگ تو دیوارِ قہقہہ کی طرف مگر یہ شور مسلسل ہے کیسا رونے کا
شاخِ شجر سے پتے گرے جب بھی ٹوٹ کے روئی تمام خلقِ خدا پھوٹ پھوٹ کے
مدّتیں ہوگئیں سورج نہیں نکلا کوئی شہر کا شہر ہے بے چین پگھلنے کے لیے
مگر یہ وقت نگار خانہ بنانے کا نہیں بلکہ اس الم کدے میں جھانکنے کا ہے جہاں انھوں نے اپنے آخری ایّام جاں کنی کے عالم کی طرح گزارے۔ پچھلے کئی مہینوں سے بستر پر پڑے پڑے زندگی اور موت کے درمیان ہونے والی کشا کش سے جو جھتے رہے۔ اس کشاکش سے ابھرے کرب کو جھیلتے رہے ۔ روز تھوڑا تھوڑا مرتے رہے۔ تھوڑا تھوڑا مٹتے رہے ۔تھوڑا تھوڑا معدوم ہوتے رہے۔ جسم و جان کے عزیز حصّوں کو کھوتے رہے ۔ کسی دن ایک ہاتھ جُدا ہوگیا ، کسی دن کوئی پائوں چلا گیا ، کسی وقت دماغ کا ایک حصہ رخصت ہوگیا ، کسی وقت دل کی کوئی دیوار بیٹھ گئی ، کسی ساعت کوئی رگِ جاں منجمد ہوگئی ، کسی وقت کمر ساتھ چھوڑ گئی، کسی دن گویا ئی غائب ہوگئی۔کسی دن سماعت جاتی رہی۔ وہ ہاتھوں کی بے وفائی ، پیروں کی بے اعتنا ئی، لبوں کی سرد مہری ، بالوں کی جدائی اور چہرے کی سیاہی پر آنسو بہاتے رہے اور اپنے ہی آنسوئوں میں چپ چاپ بہتے رہے ۔لوگ کہتے ہیں کہ میڈیکل سائنس نے کافی ترقی کرلی ہے ۔وہ مریض کو موت کے منہ سے کھیچ لاتی ہے مگر ہماری آنکھوں نے دیکھا کہ ایک شخص کو اس سائنس نے جیتے جی ماردیا۔چہرے سے رنگ اُڑادیا۔ آنکھوں میں اندھیرا بھر دیا۔ سر سے بال چھین لیے۔ جسم کا گوشت خشک کردیا ۔رنگ روپ کو بد ہیئت بنادیا۔ زندگی کی صورت کو موت سے بد تر کردیا۔جب بھی میری آنکھیں وقت کے ہاتھوں مسخ شدہ اس کرب ناک حلیے پر مرکوز ہوئیں تو ان کا یہ جملہ کانوں میں گونج پڑا ’دعا کرتا ہوں کہ کسی بڑی بیماری میں نہ پھنسوں اور دوسروں کو پریشان نہ کروں،اور اس دنیا سے چلتے ہاتھ پیر چلا جائوں‘اور ایک شعر ی نشتر میرے سینے میں پیوست ہوگیا ؎
اس بات پہ کس واسطے حیران ہیں آنکھیں
پت جھڑ ہی میں ہوتے ہیں جدا پتّے شجر سے
جب بھی میں انھیں دیکھنے جاتا میری نگاہیں بار بار میز پر سجے قیمتی انعاموں اور ٹرافیوں کی جانب اٹھ جاتیں۔شاید میرے دل کے کسی کونے میں اب بھی یہ امید باقی تھی کہ سائنس نہیں تو ادب اور فن کچھ کرسکیں ۔ یہ قیمتی انعامات اپنی قیمت دکھاسکیں۔ان کے جوہر رنگ لاسکیں ۔پت جھڑ کو بسنت میں بدل دیں ، شجر کو اس کے پتّے لوٹادیں ، اسے ہرابھرا کردیں ۔یہ امید میں شہر یارصاحب کی آنکھوں میں بھی محسوس کرتا اور اس وقت بے ساختہ اسمِ اعظم کا یہ بند میرے ذہن میں کھُل جاتا ؎
ابھی نہیں ابھی زنجیرِ خواب برہم ہے ابھی نہیں ابھی سینے کا داغ جلتا ہے
ابھی نہیں ابھی دامن کے چاک کا غم ہے ابھی نہیں ابھی پلکوں پہ خوں مچلتا ہے
ابھی نہیں ابھی در باز ہے امیدوں کا ابھی نہیں ابھی کمبخت دل دھڑکتا ہے
لیکن زنجیرِ خواب کا ہلنا ، سینے کے داغ کا جلنا،پلکوں پہ خوں کا مچلنا اور دل کا دھڑکنا رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا اورجلد ہی مجھ کوبھی یہ یقین ہوگیا کہ ع
حاصلِ سیرِ جہاں کچھ نہیں ، حیرانی ہے
زندگی کے آخری دنوں میں شہریار کو صرف کینسر نے ہی نہیں رلایا بلکہ کچھ دوسرے ناسوروں نے بھی انھیں آنسوئوں میں خوب بھِگویا ۔
علاج کے بعد دبئی اور ممبئی سے علی گڑھ لوٹے تو میں نے انھیں فون کیا:
’’اب تو آپ بالکل اچھے ہوگئے ہوں گے؟
جواب میں بولے ‘ کیسی بے وقوفی کی بات کر رہے ہو ایسی حالت میں کیا کوئی اچھا ہوسکتا ہے؟‘‘ ان کے جواب میں جھنجھلا ہٹ تھی۔
کچھ دنوں بعد ایک اتوار کی صبح ان کے پاس بیٹھا تھا تو کسی نے فون پر خیریت دریافت کی۔جواب دیا، ’’خدا کا شکر ہے، اچھاہوں ‘‘۔ حالاں کہ ان کی حالت پہلے کے مقابلے میں زیادہ بگڑ چکی تھی۔
ایک ہی سوال کے دو جواب ۔ ایک میں جھنجھلاہٹ، دوسرا جھنجھلاہٹ سے خالی۔ ایک میں اکھڑا ہوا لہجہ ،دوسرے میں ٹھہرا ہوا انداز۔ آخر یہ تضاد کیوں؟
اس سوال نے میرے ذہن کو ایک انٹرویو کی طرف موڑ دیا جس میں میرے متعلق ایک سوال کے جواب میں شہریار صاحب نے فرمایا تھا:
’’غضنفر سے میرا بہت ہی پرسنل تعلق ہے۔ ان کے بچّوں کا ، ان کی بیوی کا جو رشتہ مجھ سے رہا ، وہ بہت ہی گھریلو قسم کا ہے۔ اگرکبھی کوئی بات ہوتی ہے تو غضنفر کو سخت بھی کہہ دیتا ہوں اور وہ سنتے ہیں۔ ان کو بیٹے کی طرح مانتا ہوں ۔میں نے طے کرلیا تھا کہ سبکدوشی کے بعد شعبے کے معاملات میں دلچسپی نہیں لوں گا۔ علی گڑھ میں ان کی تقرری میں تھوڑی پیروی بھی میں نے کی ۔ بعد میں چاہتا بھی تھا کہ ان کا مستقل ہوجائے لیکن ممکن نہیں ہو پایا ۔ بہر حال ان کے لیے میں تھوڑا سا out of wayبھی جاسکتا ہوں ۔ جس طرح میں اپنے بچّوں کے سلسلے میں معروضی نہیں ہوسکتا ، اسی طرح غضنفر کے سلسلے میں بھی معروضی نہیں ہوسکتا ۔ طاقت بھی ہیں میری غضنفر اور کمزوری بھی۔‘‘
اس انٹرویو کے لفظوں نے جواب کے تضاد کا مفہوم مُجھے سمجھادیا۔ جھنجھلاہٹ میں چھپی محبت بھی سامنے آگئی ۔ وہ درد بھی ابھر آیا جو صرف اپنوں کے سامنے ظاہرہوتا ہے۔وہ درد جس میں شکایت بھی پوشیدہ ہوتی ہے اور دوائے درد کی خواہش بھی دبی ہوتی ہے اور اپنی حالتِ زار کا وہ غصّہ بھی شامل ہوتا ہے جو صرف اپنوں پر ہی اتارا جاسکتا ہے۔ یکا یک اس انٹرویو کے ساتھ ایک واقعہ بھی جڑ گیا ۔
عیدالا ضحی کے موقعے پر حسبِ معمول میں ان سے ملنے گیا۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی میرا معمول رہا کہ عید ین کے موقع پر سب سے پہلے میں شہر یا ر صاحب سے ملنے جاتا تھا۔پہلے وہ مجھے عیدی دیا کرتے تھے ، پھر میرے بیٹے کا مران کو دینے لگے کہ اس کا معمول بھی میرے جیسا بن گیاتھا ۔ عید مل چکے اور کامران کو عیدی دے چکے تو بولے ’’میرے حصّے کا گوشت کہاں ہے ‘‘؟ جواب میں میں نے جھوٹ بول دیا کہ گوشت کا پیکٹ گھر پر رہ گیا حالاںکہ سچّی بات تو یہ تھی کہ اس بار شہر یار صاحب کے حصّے کا پیکٹ بناہی نہیں تھا۔ اس لیے کہ گوشت ووشت تو ان کا کب کا بند ہوچکا تھا، اب تو وہ صرف لکویڈ غذا پر چل رہے تھے۔
اتفاق سے اسی دن مجھے دہلی آنا پڑ گیا اور ان کا حصّہ رہ گیا۔ شام کو ان کا فون آیا کہ ابھی تک میرا حصّہ نہیں پہنچا، کیا تم لوگوں نے مجھے اپنے فیملی ممبر سے اب الگ کردیا ہے۔ اس جملے نے مجھے دہلا دیا۔ اس کی کر بنا کی مجھے سر سے پیر تک چیر گئی ۔ شرمندہ ہوکر میں نے پھر ایک بہانہ بنایا ،’’ مجھے جلدی میں دہلی آنا پڑا اس لیے میں خود نہیں پہنچا سکا ، ویسے میں بشریٰ سے کہہ آیا ہوں کہ وہ آپ کا حصّہ کسی سے بھجوادیں ۔شاید وہ بھول گئیں ۔میں ابھی ان کو فون کیے دے رہاہوں ‘‘۔اور میں نے بشریٰ کو فون کیا کہ وہ فوراً شہریار صاحب کا حصّہ ان تک پہنچانے کا بندو بست کریں۔
کوئی دو ڈھائی گھنٹے بعد شہر یار صاحب کا فون آیا ،’’بیٹے !میرا حصّہ مل گیا ۔ شکریہ ‘‘۔
اپنے حصّے کے لیے ضد کی حد تک تقاضا کرنا اس نفسیاتی گرہ کی طرف ہمیں لے جاتا ہے جو بیماری کے دنوں میں ان کے
دل و دماغ میں پڑ گئی تھی۔
میں ان کاا پنوں جیسا تھا، اپنا نہیں تھا، پھر بھی میرے لیے ان کی یہ نفسیات۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اپنوں کے ساتھ ان کی اس نفسیات کا کیا عالم ہوگا ؟
میری آنکھوں نے ہر ملاقات میں دیکھا کہ ان کی آنکھیں کچھ ڈھونڈ رہی ہیں ۔ کون آیا ؟ کون نہیں آیا ؟ کون کیوں نہیں آیا؟اور کون کتنی بار آیا؟ شاید ان سب کا حساب لگا رہی ہوں۔ دیدوں میں چھپے آنسو یہ بھی بتاتے تھے کہ ان پر کیا کیا گزر رہا ہے؟ کیسا کیسا ملال دل میں پل رہا ہے؟ کس کس طرح کا غم انھیں کھائے جارہا ہے؟ کیسی کیسی پھانس سینے میں چبھی ہوئی ہے؟
جس شخص کو ساری عمر ایک ایک انسان کو اپنا بنانے کی فکر رہی ہو،جس کے دل میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے قریب کرنے کی خواہش پلی ہو، جس نے ایک عالم کو اپنے ارد گرد سمیٹ لیا ہو اور جسے اپنوں کو کھونے کا اندیشہ اور کھوچکے لوگوں کا غم ستاتا رہا ہو، اسے یہ محسوس ہونے لگے کہ اس سے اس کے اپنے چھوٹ رہے ہیں۔ لوگ اس سے دور جارہے ہیں۔ دوری بنارہے ہیں۔صر ف تکلّفات نبھارہے ہیں تو اس پر کیا گزرتی ہوگی؟ کیسی قیامت ٹوٹتی ہوگی؟ جو انسان دلوں کے درمیان دوری نہیں دیکھ سکتا تھا ۔جس نے مشرق اور مغرب کے دوپول آلِ احمد سرور اور خورشید الاسلام کو ایک میز پر بٹھا کرمدّتوں کی عداوت مٹا دی، برسوں کی دشمنی بھلا کر قاضی عبدالستار سے دوستی کرلی، مغنی تبسم اور اپنے درمیان کے من موٹائو کو مٹا دیا،صلاح الدین پر ویز کو معاف کردیا،ساجد رشید کو گلے لگا لیا ،نارنگ اور فاروقی کے درمیان کی دوری کو کم کرنے کی پوری کوشش کی، اس کو اپنوں سے دوری کا احساس ہوجائے یا دل میں دوری کا اندیشہ ہی سماجائے تو وہ کس کرب سے گزرے گا اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔
جو انسان تجدیدِ ملاقات میں پہل کرتاہو، دلوں کو ملاتا ہو، دوریوں کو گھٹا تا ہو، نفرتوں کو مٹاتا ہو، کدورتوں کو دور کرتا ہو،کڑواہٹوں کوکم کرتا ہو، اپنی زیادتی پر شرمندہ ہوتا ہو، اپنی غلطی پر اپنے خوردوں سے بھی معافی مانگ لیتا ہو، اس سے بھلا یہ کیوں کر ممکن ہے کہ اسے اپنے عزیز ترین رشتے کے ٹوٹنے کا پچھتا وا نہ ہو ۔اس نے اپنے ٹوٹے ہوئے رشتے کو جوڑ نے کی کوشش نہ کی ہو ۔
سچ تو یہ ہے کہ شریکِ سفر سے الگ ہو کر شہر یار بے درد نہیں بنے۔خوش کبھی نہیں بیٹھے۔ دوری کادرد انھیں ہر وقت دُکھ دیتا رہا ۔آخری وقت میں بھی ان کے دل سے یہی نکلتا رہا ع
آج بھی ہے تری دوری ہی اداسی کا سبب
ترکِ تعلق کے باوجود انھیں بچھڑنے والے کی کبھی کبھی نہیں ،بلکہ اکثر ضرورت محسوس ہوتی رہی ۔ انھوں نے ہمیشہ چاہا کہ رنجش دور ہوجائے ۔ نفرت کی دھند چھٹ جائے۔ غلط فہمیوں کے جالے ہٹ جائیں۔ کدورتوں کا میل دُھل جائے۔ دل صاف ہوجائے۔ جیسے بھی ہو بات بن جائے ۔ انھوں نے امید یں بھی باندھیں اور اپنی اس اُمید کو ذہن و دل کی بھٹّی میں پکا کر عام بھی کیا ؎
بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی
دل میں امید تو کافی ہے ، یقیں کچھ کم ہے
مگر امید امید ہی رہ گئی۔ البتہ قابلِ صد مبارک باد ہیں وہ بچّے جنھوں نے دبئی ،ممبئی اور علی گڑھ کوایک کردیا اور دنیا کو دکھادیا کہ کسی بھی حال میں محبت دم نہیں توڑتی ۔بھیّو، خسرو اور صائمہ کا اس موقعے پر بھاری من اور پُرنم آنکھوں کے ساتھ کیا گیا عمل شہر یار کی اس آواز کا ترجمان بن گیا ؎
قطرۂ اشک سے آنکھوں کا بھرم باقی ہے
چھین لے جائے نہ اس کو بھی ہوا دنیا کی
شہر یار کی موت پر ان کے اس شعر کا ترجمان صرف ان کے بچوں کی چشمِ تر ہی نہیں بنی بلکہ اس کے عکاس ایک عالم کے دیدۂ نمناک بھی نظر آئے ۔
جب طائرِ روح نے پر واز کیا اور آشیاں کے دیدار کا سلسلہ شروع ہواتو علی گڑھ کے ایک سفینے میں خلقت کا ازدہام سمٹ آیا۔ ملک کے گوشے گوشے سے چاہنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ میں بھی دیدۂ پر نم لیے حاضر ہو ا۔ دیدار کا شرف بھی حاصل ہوا لیکن آج میرے سوالوں کے جواب خاموشی دے رہی تھی اور ذہن کے پردے پر یہ منظر عکس ریز تھا ؎
وہ جو آسماں پہ ستارہ ہے
اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لو
اسے اپنے ہونٹوں سے چوم لو
اسے اپنے ہاتھوں سے توڑ لو
کہ اسی پہ حملہ ہے رات کا
-----------------------------------------------
ویب سائٹ کے فیس بک فورم کو جوائن کرنے کے لئے درج ذیل لنک پہ کلک کریں ۔ شکریہ
https://www.facebook.com/groups/urduafsane/
https://www.facebook.com/groups/340423796052693/
https://www.facebook.com/groups/2614199495522954/
---------------------------------------------------------------------
کمنٹ کریں