
وسیم قریشی
سر عام پھانسی یا نا مرد بنانے کی سزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیراعظم نے جنسی زیادتی کرنے والوں کیلئے یہ دو سزائیں تجویز کی ہیں کہ یا تو ان کو نا مرد کر دیا جائے یا پھر سر عام پھانسی کی سزا دی جائے.
بات اگر نا مرد بنانے کی کریں تو میرے مطابق اس سزا کے بعد ہمارے ملک میں زیادتی کے کیسز کی تعداد تو کم ہو جائے گی لیکن باقی تمام جرائم کی شرح خطرناک حد تک بڑھ جائے گی....
میں جانتا ہوں کہ آپ لوگ میری بات سے اختلاف کر رہے ہوں گے آپ کا اختلاف اپنی جگہ جائز ہے لیکن بات کچھ حقائق کی کرتے ہیں.
نا مرد بننے کے بعد ایک ایسا شخص انتہا کی حد تک نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگا اور اس دوران وہ ہر جرم کرے گا جو کرنا اس کیلئے ممکن ہوگا کیونکہ جس شخص کو زندگی ہی پیاری نہ ہو اور جس کے پاس زندہ رہنے کی کوئی وجہ ہی باقی نہ رہے ایسے شخص کو موت کی کوئی فکر یا موت کا کوئی بھی خوف نہیں ہوتا اور جس شخص کو موت کا خوف نہ ہو وہ ہر کام بے باکی سے، بلا خوف اور نڈر بن کر کرتا ہے پھر وہ جرم ہی کیوں نہ ہو.
میری نظر میں اس سزا کے بعد خوفناک نتائج سامنے آئیں گے جو شاید ہماری سوچ سے بھی بالا تر ہوں گے اور اگر اس سزا کو دوسرے رخ سے دیکھا جائے تو نا مرد بنانے کے بعد وہ نا مرد تو بن جائے گا لیکن کیونکہ وہ پیدائشی طور پر مرد تھا تو اس کی سوچ اور اس کے جذبات دفن نہیں ہوں گے وہ زندہ ہی رہیں گے جس کی وجہ سے اس شخص کے دل و دماغ میں یہ سوچ اور یہ خواہش جنم لے گی مگر وہ ان خواہشات کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہوگا تو آپ ایک لمحے کیلئے سوچ کر دیکھیں کہ کوئی کچھ کرنا چاہتا ہو لیکن کرنے کے قابل نہ ہو تو اس کی ذہنی کیفیت کس طرح کی ہوگی پھر ہوگا یہ کہ اس طرح کے نفسیاتی لوگ جنسی زیادتی یا ریپ کرنے کے قابل تو نہیں ہوں گے البتہ قتل کرنے کے قابل ضرور ہوں گے تو اس طرح ہمارے ملک میں زیادتی کی تعداد کم مگر قتل کی تعداد بڑھ جائے گی اور ایک بات کہ قتل بھی وہی مخالف جنس کے ہوں گے اور اب قتل کرنے والا انتہا کا پاگل، نفسیاتی اور جنونی ہوگا..و
میری نظر میں اگر اسی سزا کا اطلاق کرنا ہے تو نا مرد بنانے کے بعد اسے ساری زندگی آخری سانس تک جیل میں رکھا جائے تو بہتر ہوگا ورنہ وہ باہر انسان بن کر نہیں وحشی اور درندوں کی طرح ہی زندگی گزارے گا اور ایسے پاگل کتے کی مانند ہوگا جو ہر آتے جاتے کو کاٹے گا.س
اب آتے ہیں سر عام پھانسی کی سزا کی جانب تو میری نظر میں یہ ایک اچھا فیصلہ ہوگا کیونکہ جب سر عام پھانسی ہوگی اور اگر اس پھانسی کو تمام میڈیا چینلز پر بھی نشر کیا جائے گا تو اس سے خوف پھیلے گا اور لوگ اپنے انجام کا سوچ کر گھبرانے لگیں گے.
مگر یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ مجرم پکڑا جائے، اس پر زیادتی ثابت ہو پھر ہی اس سزا کا اطلاق ممکن ہے اور اگر معاملات ایسے ہی رہیں اور مجرم کی نشاندہی میں اور پکڑے جانے میں ہی چھ ماہ یا ایک سال کا عرصہ لگ جائے اور پھر زیادتی ثابت ہونے میں چھ ماہ یا ایک سال کا مزید عرصہ لگ جائے اور اس کے بعد سر عام پھانسی میں بھی مزید تین سے چھ ماہ کا عرصہ لگ جائے تو اس طرح ایک مجرم کو سزا ہوتے ہوتے دو یا تین سال بیت جائیں گے اور اس دوران مزید بیس، تیس یا چالیس ریپ ہو چکے ہوں گے اور اس سزا کا بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا.
ایک اور نقصان اس سزا کا یہ ہوگا کہ ہمارے ملک میں اس وقت کرپشن عروج پر ہے اور یہاں کے تھانے سرداروں، وڈیروں، جاگیرداروں، سیاستدانوں اور چوہدریوں کے ما تحت ہی کام کرتے ہیں اور یہ لوگ کسی بھی غریب یا بے گناہ کو فقط ایک کال پر ہی جھوٹے پرچوں میں پھنسا کر کیس کو مضبوط بھی کروا دیتے ہیں اور کسی بھی بدمعاش یا مجرم کو ایک فون کال پر رہائی بھی دلا دیتے ہیں تو ان حالات میں قتل بہت ہی آسان عمل ہوگا کیونکہ یہ جب چاہیں گے جسے چاہیں گے زیادتی کے کیس میں ملوث کریں گے اور سر عام پھانسی تک بھی پہنچا دیں گے اور اگر بات ڈی این اے کی یا زیادتی ثابت ہونے کی ہے تو کرپشن کے ان حالات میں جھوٹی ڈی این کی رپورٹ کوئی مشکل بات نہیں ہے.
یہاں تو اینٹی کرپشن کے محکمے تک کرپشن کی داستانیں رقم کر رہے ہیں اور اس محکمے میں بھرتی ہونے والے ایک عام سے سپاہی کے گھر بھی آم کی پیٹیاں ایسے آتی ہیں جیسے لاٹری میں عام کا باغ نکل گیا ہو.
میرے وزیراعظم سب سے پہلے پولیس ریفارمز لے کر آئیں، اس محکمے کو کرپشن فری بنائیں، سفارشی بھرتیوں کو مکمل طور پر ختم کریں، اینٹی کرپشن کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ کرپشن فری بھی کریں.. یہ
جس تھانے کی حدود میں اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں ان کیلئے ایک دورانیہ منتخب کریں کہ اگر اس دوران مجرم کو پکڑ کر پیش نہ کیا گیا تو تھانے کے ایس ایچ او، ڈی ایس پی یہاں تک کہ ڈی پی او کو معطل کر دیا جائے گا.
ان کیسز کی روک تھام چاہتے ہیں تو ہماری خفیہ ایجنسی کو اس میں شامل کریں تاکہ مجرم کے ساتھ ساتھ مجرم کی پشت پناہی کرنے والوں اور ان کیسز میں رشوت لینے والوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچایا جائے.
ہمارے عدالتی نظام کو مضبوط کریں، بروقت انصاف کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے تاکہ اصل مجرم کی شناخت کرنے کے بعد جلد از جلد سزا کا اطلاق کیا جائے.
تب جا کر زیادتی کے کیسز کی روک تھام ممکن ہوگی ورنہ قانون بنتے رہیں گے اور ٹوٹتے رہیں گے، مجرم آزاد گھومتا رہے گا اور بے گناہ کو سر عام پھانسی پر لٹکا کر اپنی کوئی ذاتی دشمنی یا رنجش نکالی جائے گی. م
اس کے علاوہ ان کیسز کی تعداد کو کم کرنا چاہتے ہیں تو ان حقائق پر بھی بات کر لیں جنہیں ہم اگنور کرتے ہیں اور ان پر کوئی بھی بات نہیں کرتا.
1- اس ملک سے جلد از جلد تمام پورن انڈسٹری اور تمام فحش ویب سائٹس کو مکمل طور پر بین کیا جائے.
2- سوشل میڈیا اور ہمارے نیوز چینلز پر ہونے والے بیہودہ پروگرام جن میں چھوٹی چھوٹی بچیوں کو ادھورے لباس میں منی بدنام ہوئی، شیلہ کی جوانی، انار کلی ڈسکو چلی، اک گناہ کر لوں گناہ کی رات ہے جیسے گانوں پر نچانے کا عمل اور یہ ٹک ٹاکرز کو بلا کر ان کی پزیرائی کرنے میوزیکل چیر کے مقابلے کروانے اور بیہودہ لباس پر پابندی عائد کر دی جائے...
3- ٹک ٹاک، bigo جیسی تمام ایپس کو بھی مکمل طور پر بند کر دیا جائے.ق
4- یہ ہمارے پاکستانی ڈراموں میں دیور کا بھابی کے ساتھ، سسر کا بہو کے ساتھ، ٹیچر کا سٹوڈنٹ کے ساتھ چلنے والا کلچر بند کیا جائے.
ڈراموں سے یہ فلاں کے ساتھ زیادتی، اجتماعی زیادتی، گینگ ریپ، اغوا جیسے مناظر نکالے جائیں کیونکہ جسے نہیں بھی پتا اسے بھی دکھایا جا رہا ہے کہ اپنی جنسی تسکین اور ہوس پوری کرنے کا ایک زریع یہ بھی ہے.
5- ایک کوشش والدین کو بھی اپنی طرف سے کرنی ہوگی کہ بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بیٹوں کی تربیت پر بھی دھیان دیں اور وقت پر شادیاں کرنے اور اپنے بچوں کی پسند کا خیال رکھنے کے کلچر کو فروغ دیں.
6- اگر ممکن ہو سکے تو کو ایجوکیشن کو بھی ختم کرنے پر غور کیا جائے.
7- سکول کالج اور یونیورسٹی میں ہونے والے میوزیکل میلے اور اینول فنکشن پر ہونے والی بے حیائی کو بھی ختم کیا جائے...
ورنہ آپ لوگ کچھ بھی کرتے رہیں یہ معاملات رکنے والے نہیں ہیں.
کمنٹ کریں