
افسانہ : خرافات
مائرہ انوار راجپوت
rana55anwaar@gmail.com
آصف کا شمار ایسے کھلاڑیوں میں ہوتا تھا جن میں سپورٹس مین سپرٹ کی کمی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے کھلاڑی پہلی گیند پر ہی شکست قبول کر لیتا ہے۔دراصل آصف غیر مستقل مزاجی کے باعث تمام عمر سمت کا تعین کرنے سے محروم رہا تھا۔ وہ اپنے لیے خود سے ہی کئی اصول بناتا، منصوبے گھڑتا، کئی وعدے کرتا پھر فراموش کر جاتا اور خود ہی شکست قبول کرلیتا۔ حقیقتاً آصف میں مردانہ وار ڈٹے رہنے کی صلاحیت بھی کم تھی۔ وہ نازک ہرنی کی طرح دوڑ لگانے کو ہی آخری حل سمجھتا تھا۔ اور جب بھاگ بھاگ کر تھک جاتا تو سرنگ گھوڑے پر سوار شکاری کو تعاقب میں پاتا یوں اس کی لڑنے اور ڈٹنے کی قوت بالآخر ختم ہو جاتی اور وہ دونوں ہاتھ زمین میں گاڑ کر خود کو انجام کے حوالے کر دیتا۔ دوڑ اور فرار آصف کے نزدیک آسان اور آخری حل تھا۔ جبکہ عموماً فرار کا راستہ کمزور افراد کا انتخاب ہوتا ہے۔کیکر کی لکڑی سے بنے بالے کی چھت والے چھوٹے اور اندھیرے کمرے میں جب آصف پیدا ہوا تو دائی نے اس کے گلے میں الجھی آنول کو اتار کر گلابی اور نیلے بدن کو کالے کھیس میں لپیٹا___ ماں نے لمبا سانس لے کر مٹھیاں ڈھیلی چھوڑ دیں اور اپنی نم آنکھوں سے بغل میں لیٹی چوتھی بیٹی کو دیکھا جو آصف سے پورے پانچ منٹ بڑی تھی۔ ماں کے لیے چوتھی بیٹی بخت آور ثابت ہوئی تھی جو ساتھ اکلوتے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر دنیا میں آئی تھی۔کچی اینٹوں سے بنا غارے کی چنائی اور لپائی والا بڑا سا گھر جس کے بے حد کھلے صحن میں لگے شہتوت اور جامن کے پیڑ تلے چھوٹے چھوٹے کھیل کھیلتے ہوئے نجانے کب اس نے قد نکالا اور کب مونچھوں پر ابا کا بلیڈ چرا کر پھیرا تھا۔اور پھر تمام عمر وہ شکست سے دوچار ہوتا رہا۔ اس کے لیے بہتر تھا کہ وہ مونچھیں چہرے پر سجا کر جوان مرد نہ بنتا__ یا پھر اپنے اندر ڈٹے رہنے کی طاقت پیدا کرتا۔
اس نے پہلی بار شکست کا سامنا تب کیا جب اسنے اپنے اندر مرد ہونے کے باوجود محبت کو جنم دیا۔فطرتاً جنم دینا عورت کی ذمہ داری ہے۔ جسے وہ روز اول سے نبھا رہی ہے۔
آصف کو جب عطیہ سے محبت ہوئی تب دوسرے نمبر والی بہن کے دن ڈالے جاچکے تھے۔ دن بھر محلے کی عورتیں صحن میں بیٹھ کر جہیز کی رضائیوں میں دھاگے گھوماتی رہتیں اور لڑکیاں ریشمی ڈوپٹے اڑھے کپڑوں پر گوٹہ لگاتی رہتیں۔عطیہ بھی ان میں شامل تھی۔ عطیہ کو پانا آصف کے لیے کوئی مشکل کام نہ تھا۔ چچا کی بیٹی اور بڑی بہن کی نند__ پھر کیسی مشکل ہونی تھی بھلا۔
جس روز عطیہ نے لال عطر دھویا جوڑا پہن کر آصف کا کمرہ مہکایا اس روز تک آصف کو عطیہ سے زور آور محبت ہو چکی تھی۔شادی کے شروع کا عرصہ آصف پر شادی ایتھر کی طرح سوار تھی۔ وہ سوتے جاگتے ہر لمحہ ہر جگہ عطیہ میں لپٹا رہتا۔ نوکری کے لیے شہر جاتے ہوئے وہ سب سے زیادہ اداس عطیہ کی دوری پر تھا۔ شہر کی روشنیاں، سجے بازار، بھاگتی زندگی اس سب میں بھی اس کا دل عطیہ کی کمی کو محسوس کیے جاتا۔ ہر ہفتہ وہ صرف عطیہ کی خاطر گھر آتا اور اگلی صبح واپسی پر وہی اداسی گھیرا تنگ کر لیتی۔ عطیہ اسکے لیے اس قدر اہم تھی۔ اور اگر عطیہ اتنی اہم تھی تو زری کیونکر آئی؟
زری کون تھی؟
عام طور پر چور چوری کے لیے کونوں کھدروں میں چھپتا ہے، چہرہ ڈھانپ لیتا ہے، کنڈے چڑھا دیتا ہے اور چوری کے بعد قفل توڑ کر صدر دروازے سے بھاگ جاتا ہے۔ لیکن جب میاں بیوی چوری کرنے لگتے ہیں تو وہ کونوں کھدروں میں چھپتے نہیں ہیں نہ کنڈا چڑھاتے ہیں۔ بلکہ ایک دوسرے کے برابر لیٹ کر، ایک تکیے پر سر رکھ کر اجنبی ہو جاتے ہیں۔
جب آصف نے زری کو سوچا تھا تب وہ عطیہ کے برابر ایک تکیے پر اسکے ساتھ لیٹا تھا۔ عطیہ کو پہلو میں رکھ کر وہ فرار ہو گیا تھا۔
زری اسکی صرف کولیگ نہیں تھی بلکہ محبت بھی تھی۔ یہ محبت کب ہوئی؟، اس محبت میں عطیہ کیسے فراموش ہوئی؟, عطیہ سے زری تک کا اور زری سے کسی تیسری عورت تک آصف کا وجود کس باطل کی نشاندہی کرتا ہے؟ یہ سب ایسے سوال تھے جن کے خوف سے آغاز میں آصف نے زری سے دوری کے کئی منصوبے بنائے، وعدے کیے،خود پر اصول لاگو کیے۔ ہر طرح کی حفاظتی تدابیر کیں۔ لیکن پھر ہار کر زری کے سامنے شکست قبول کر لی۔ زری کو اسکے شادی شدہ ہونے سے کوئی فرق نہ پڑتا تھا اور آصف اس کو پا کر سرشار تھا۔ حالانکہ عطیہ نے بھرپور احتجاج کیا۔ اس نتیجہ میں بڑا نقصان یہ بھی ہوا کہ بڑی بہن کو سسرال سے واپس بھیج دیا گیا۔ بہن نے چار بچوں کے سر کا واسطہ بھی دیا۔ مگر تب تک ہر زنجیر کھینچ کر آصف کو زری تک لے جا چکی تھی۔ عطیہ اسے چھوڑ گئی، بہن سسرال سے نکال دی گئی، اماں بابا صدمے سے نڈھال ہوئے۔ مگر آصف خوش تھا کیونکہ زری اس کے ساتھ تھی۔شاید وہ خود غرض نہیں تھا ایسا حال ہر اس مرد کا ہوتا ہے جسے شادی کے بعد ٹوٹ کر محبت ہو جائے۔ اپنی زندگی کے چودہ برس آصف نے زری کے ساتھ خوشی خوشی گزارے۔ اسکے پاس ہر خوشی، ہر نعمت موجود تھی۔ پھر بھی نجانے رات کے پچھلے پہر سینے میں کوئی ٹیس سی اٹھتی اور بے اختیار منہ سے عطیہ کا نام پھسل جاتا۔ زری کے ساتھ لیٹ کر پچھلے پہر عطیہ کا نام لینا اسکو اخلاقی چوری معلوم ہوتی۔ مگر یہ چوری تو اسنے عطیہ کے برابر لیٹ کر زری کو سوچ کر بھی کی تھی۔"عطیہ کا شوہر پچھلے مہینے مر گیا"____ یہ خبر سن کر اسے دکھ، افسوس اور پچھتاوے نے گھیرا۔ لیکن پھر اگلے لمحے کچھ طے پا گیا۔
عطیہ سے زری اور زری سے عطیہ تک کیا ثابت کرے گا؟
حقیقت میں کون ہے؟
عطیہ یا زری؟
یا دونوں۔۔؟
عطیہ تک واپسی کا سن کر زری نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ شاید وہ پہلے سے باخبر تھی۔
بیوی چوری کرے تو احتیاط سے کرتی ہے۔ پھر بھلے رات کا پچھلا پہر ہو یا دن کا اگلا پہر ہو۔ وہ محتاط انداز میں قرینے سے بیوفائی کرتی ہے۔شوہر چوری کرے تو پہلے لمحے ہی پکڑا جاتا ہے۔دراصل بیوی کی حسیات تیز ہوتی ہیں۔ وہ رات کو سوتے میں بھی بند آنکھوں کے ساتھ پہرا دیتی ہے۔
زری نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ گھر بھی نہیں چھوڑا۔ آصف کی چودہ سالہ رفاقت نے شاید زری کو بھی شکست قبول کرنا سیکھا دیا تھا۔
لیکن عطیہ نے کے انکار نے زری کو ملال کے کنوئیں میں ضرور ڈبویا۔عطیہ بطور عورت تقسیم کی جس تکلیف کو سہہ گئی تھی وہی تکلیف زری کو کیسے دے دیتی۔یا آصف عطیہ کی نظر میں قابلِ اعتبار نہ رہا تھا۔
تکلیف میں تو آصف بھی تھا۔
ڈاکٹر کہتے ہیں اسکی موت حادثہ تھی۔ ورنہ ہارٹ اٹیک کے بعد تندرست ہو کر گھر واپس آنے کے بعد وہ کیسے مر گیا۔
لیکن زری جانتی ہے آصف کی موت حادثہ نہیں تھی۔ دنیا اس موت کو حادثہ کہہ سکتی ہے۔ زری نہیں۔۔
وہ خوب جانتی ہے پڑھا لکھا آصف غلطی سے رات کے پچھلے پہر ٹیس اٹھنے پر، عطیہ کا نام پھسلنے پر اتنی تعداد میں سونرل نہیں کھا سکتا۔
ویب سائٹ کے فورمز کو جوائن کرنے کے لئے درج ذیل لنک پہ کلک کریں ۔ شکریہ
کمنٹ کریں