
کرونائی افسانہ : لاک ڈاؤن
افسانہ نگار : اویناش امن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بحث کا موضوع ہو سکتا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلی پیشن گوئی کب اور کیا کی گئ لیکن اس پر سب اتفاق کریں گے کہ انسانی تاریخ کی شروعات سے آج تک سب سے زیادہ جو بات دہرائ گئ وہ ہے دنیا ختم ہونے والی ہے ۔
جب پتھروں کے زمانے میں زمین کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھنے لگا اور گلیشیروں نے پگھل کرتقریباً پورے کرہ ارض کو برف کی موٹی موٹی چادروں سے ڈھانک دیا تو ابتدائ انسانوں نے ایک دوسرے سے چمٹ کر دانت کٹکٹاتے ہوۓ کہا ۔"دنیا ختم ہو نے والی ہے" ۔ جب زمین پر مذہبوں کا ظہور ہوا تو لوگوں نے پڑھنا شروع کیا ۔ دنیا ایک دن ضرورختم ہو جاۓ گی جل کر یا پانی میں ڈوب کر . قیامت آۓ گی ، پرلۓ ہو گا ۔ ایسا ہی لوگ طویل جنگوں اور بھیانک وبا کے دور میں بھی سوچتے ۔ کبھی کوئ سیارہ یا کومیٹ زمین سے ٹکرانے کو ہوتا تو کبھی کیلینڈر ہی ختم ہو جاتا لیکن دنیا چلتی ہی رہی ، اپنی رفتار سے کبھی تیز گام کبھی سست ۔۔۔۔
مگر ان دنوں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اب واقعی دنیا کے ختم ہو نے کا وقت آ گیا ہے ۔ ایسا دور ہمارے زمانے کے لوگوں نے کبھی دیکھا نہ تھا بس جرمن فیور ، پلیگ ، چیچک اور عالمی جنگ کے قصے سنے تھے مگر آج دہشت بانہیں پسارے سامنے کھڑی تھی ۔ آج پوری دنیا ایسے دشمن کے حملے سے ہلکان تھی جسے ننگی آنکھوں سے دیکھنا ناممکن تھا ۔
گلیاں سنسان ، راستے ویران ، سڑکیں خاموش ، بستیاں حیران ۔ ہر طرف موت کا سناٹا اور خوف کا پر سکوت عالم ۔ سب اپنے اپنے گھروں میں قید ،آنے والے کل سے بے خبر خوف اور اندیشے میں جینے کو مجبور ۔ انسداد وبا کے لۓ پورے ملک کی رفتار روک دی گئ تھی مگر روز بروز متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہی ہو رہا تھا اور مہلوکین کے اعداد و شمار میں کوئ کمی نہیں آ رہی تھی ۔
آج لاک ڈاؤن کا دوسرا ہفتہ تھا اور زندگی اپنے معمول سے پوری طرح الگ تھلگ پڑ چکی تھی ۔ سارا روٹین بے تر تیب ہو چکا تھا ۔سونے ، جاگنے ، کھانے ، پڑھنے کسی کام کا کوئ طۓ شیڈیول باقی نہیں رہ گیا تھا ۔ روزانہ دفتر جانا اور آنا زندگی میں کتنی با ضابطگی لاتا ہے ، اسکا احساس پہلی بار ہوا ۔ اب کیا سوموار اور کیا اتوار ؟ سب برابر تھے ۔ہمیشہ دریا کی طرح رواں رہنے والی میری زندگی اب اس پوکھر کی طرح ہو چلی تھی جس کی تلی پر جمود کی وجہ سے کائ جم گئ ہو ۔
میں دو پہر کا کھانا کھا کر کمرے میں بیٹھا ہی تھا کہ موبائل بج اٹھا ۔ میں نے اٹھا کر دیکھا ۔۔۔شوکت ہوم
" ہیلو شوکت بھائ آداب"
"نمستے راکیش انکل ۔ میں شفقت بول رہا ہوں ۔ شوکت صاحب کا لڑکا "
" اچھا شفقت ! مجھے تھوڑی تشویش ہوئ ۔ عام طور پر شفقت مجھے فون نہیں کرتا تھا ۔ کبھی کبھی جب شوکت بھائ خود فون نہیں اٹھاتے تو وہ بس اطلاع بھر دیا کرتا "
“ ابا باتھ روم میں ہیں یا ابا فون گھر بھول گۓ ، آنے پر کہ دوں گا ۔ بس اتنا ہی ۔حیرت ہے اس نے کیوں فون لگایا ؟
" شفقت بیٹے سب خیریت' ؟
" انکل ہم لوگ بہت مصیبت میں ہیں - ابا بھی جماعت میں نکلے تھے ، لاک ڈاؤن کی وجہ سے ابھی تک نجیب آباد میں ہی پھنسے ہوۓ ہیں ۔ امی جان کو کل رات پیٹ میں شدید درد ہوا ۔ہم انہیں سٹی ہاسپیٹل لے گۓ ۔ معلوم ہوا کہ انکے پیٹ میں ایک بڑا ٹیومر ہے جسے آپریشن کر کے نکالنا ہوگا ۔ٹیومر کی وجہ سے پیٹ میں انفیکشن پھیل گیا ہے ۔انہیں لوبلڈ پریشر بھی ہے ۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ جب تک انکے گروپ کا بلڈ مل نہیں جاتا آپریشن نہیں کیا جا سکتا" -
" تو کیا خون کا انتظام ہوا ؟ میں نے فکر مند لہجے میں پوچھا" ۔
"نہیں انکل ۔ ہم نے بہت کوشش کی مگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے کہیں سے بھی خون کا بندوبست نہیں ہو سکا۔ تب ابا نے آپکے بارے میں بتایا کہ آپ انشا اللہ ضرور ہماری مدد کریں گے ۔ امی جان کا گروپ AB-ve ہے ۔ اگر آپکی نظر میں کوئ اس گروپ کا ہے تو بتائیے" ۔
شفقت رندھے گلے سے سب کچھ ایک سانس میں بول گیا ۔
ارے AB -ve تو میرا ہی بلڈ گروپ ہے ۔ میں چہک کر بولنے ہی والا تھا کہ میری آواز میرے گلے میں پھنس کر رہ گئ ۔ قسم قسم کے خیالات ذہن میں آنے لگے ۔
لاک ڈاؤن میں گھر سے باہر نکلنا تو بہت مشکل کام ہے اوپر سے سٹی ہاسپیٹل ! شہر کے تمام کورونا مریض وہیں تو بھرتی ہیں ۔ کہیں مجھے بھی انفیکشن ہو گیا تو ؟ میں نے سنبھل کر کہا
" دیکھتا ہوں ، شاید کوئ مل جاۓ مگر اس لاک ڈاؤن میں کون گھر سے نکلنے کو تیار ہوگا ؟ خیر ۰۰۰۰
" ٹھیک ہے انکل" ۔ کہ کر شفقت نے فون کاٹ دیا
میں نے اپنے بچپن کے دوست کے بیٹے کو انکار تو کر دیا مگر میرا دل و دماغ بے چین ہو گیا تھا ۔ میں نے دل کو سمجھانے کی کوشش کی - اتنا بڑا ہسپتال ہے ، کہیں نہ کہیں سے خون کا انتظام ہو ہی جاۓ گا ۔ دل نے کہا ۔ اور اگر ایسا نہ ہوا تو ؟
میں نے ایک سگریٹ جلائ اور بالکنی میں کھڑا ہو کر سامنے کی خالی سڑک کو دیکھنے لگا ۔ کبھی کبھی کوئ گاڑی سناٹے کو چیرتی ہوئ سائیں سے گزر جاتی اور اگلے ہی پل پھر سے خاموشی چھا جاتی ۔ سڑک کے پار والا شاپنگ مال جس میں گھسنے کے لۓ قطاریں لگتی تھیں آ ج گدھے کے پیٹ کے طرح خالی تھا ۔
میرے اندر کی کشمکش میری اہلیہ سے کبھی پوشیدہ نہیں رہی۔ وہ ہمیشہ میرے چہرے کے زاویئے سے میرے باطن کا اندازہ لگا لیتی ہے ۔
" کیا بات ہے ؟ کوئ پریشانی ہے" ؟
"میں نے اہلیہ سے اپنی بے کلی کی وجہ بتائ تو سنتے ہی اسکے تیور بدل گۓ" ۔
" کیا مطلب ہے آپکا B-ve ہے تو ! آپ خون دینے جایئے گا وہ بھی سٹی ہاسپیٹل میاں ٹولی ٹپ کے ؟ ٹی۔ وی، او ۔ وی نہیں دیکھتے ہیں ؟ ابھی پرسوں ہی تو ہاسپیٹل کے پاس والی مسجد سے ۱۴ جماتی پکڑایا ہے ۔ دیکھ نہیں رہے ہیں کیسے گھوم گھوم کے دیس بھر میں کورونا بانٹ رہا ہے" ۔
اہلیہ نے پہلے سے ہی حملہ ور رویہ اپنا لیا تھا کہ آگے میں کچھ سوچنا چاہوں بھی تو سوچ نہ سکوں ۔ پھر بھی میں خاموش نہیں رہ سکا ۔
"کیسی جاہلوں سی باتیں کرتی ہو ۔ بے چارے جماعت والے اگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے پھنس گۓ تو انکا کیا قصور ۔ انکی مجبوری تمہیں دکھائ نہیں دیتی ۔ ممکن ہے مینیجمنٹ کی طرف سے کچھ غلطی ہوئ ہو مگر اسکا ٹھیکرا کیا سارے لوگوں پر پھوڑا جاۓ گا ؟ اب تو میڈیا نے انہیں اتنا ڈرا دیا ہے کہ انکے پاس چھپنے کے علاوہ راستہ بھی کیا بچا ہے ۔ اور کیا تم شوکت بھائ کو نہیں جانتی کہ وہ کیسے انسان ہیں ؟ آج جبکہ انکے کنبے پر مصیبت آن پڑی ہے تو کیا میرا کچھ فرض نہیں کہ اپنے پچپن کے دوست کی مدد کروں ۔
" وہ سب میں نہیں جانتی ۔ جان رہے گی تو ایسے بہت سارے یار دوست آتے جاتے رہیں گے " - وہ پاؤں پٹختی کچن کے اندر چلی گئ ۔
مجھ میں اہلیہ کی مخالفت کی طاقت نہیں تھی -پھر کچھ دن گزر گۓ ۔ شفقت کا کوئ فون نہیں آیا اور نہ ہی میں نے اسے فون کیا ۔ میرے پاس کچھ کہنے کو تھا ہی نہیں ۔ لاک ڈاؤن کا ایک فیج گزر چکا تھا ۔ اب ۳۳ فی صد ملازمین کی حاضری کی شرط کے ساتھ دفاتر کھل چکے تھے ۔ کچھ ضروری دکانیں بھی سوشل ڈسٹینسنگ کی شرائط کے ساتھ کھلنے لگی تھیں۔ میں بھی اب دفتر جانے لگا تھا ۔ جانے میں گھبراہٹ تو بہت ہوتی تھی مگر کوئ چارہ بھی نہ تھا ۔میں چہرے پر ماسک لگا کر ، دستانے پہن کر آفس جاتا مگر انسان لاکھ کوشش کر لے سماج سے الگ نہیں رہ سکتا ، روز مرہ کے کام ، دفتر آنا جانا ، ہاٹ بازار ، انسان کہاں تک محفوظ رہے ؟
ایک روز دفتر میں مجھے کھانسی اور چھینک کا زبردست دورہ پڑا ۔ میں باتھ روم دوڑا ، قلی کی مگر چھینک رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔ آوا ز سن کر آفس میں موجود میڈیکل اسٹاف دوڑے آۓ ۔ میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ سیزنل ہے مگر مجھے اسپتال میں بھرتی کر دیا گیا اور میری جانچ کی گئ ۔ جانچ رزلٹ پازیٹیو تھا ۔ میں کورونا کی زد میں آ چکا تھا ۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔ میں نے بہت یاد کرنے کی کوشش کی کہ میں کہاں کہاں کن کن سے ملا ، ہر ممکن اتفاق پر سوچا مگر اب سوچنے کے لۓ کچھ نہیں بچا تھا ۔
میں شدید تکلیف میں تھا ، اب میں نہ کسی سے مل سکتا تھا نہ کسی اپنے کو دیکھ سکتا تھا ۔ ادھر مرض نے تیزی سے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ۔ مجھے لگنے لگا کہ اب میں زیادہ دن نہیں بچوں گا ۔ میں نے خود کو بھگوان بھروسے چھوڑ دیا مگر ابھی شاید میری زندگی کے کچھ دن باقی تھے ۔ یہ دواؤں کا اثر تھا یا دعاؤں کا صدقہ ، کچھ دنوں بعد میری صحت بہتر ہونے لگی اور ایک دن ایسا آیا جب میں پوری طرح ٹھیک ہو گیا ۔
آج مجھے ہسپتال سے چھٹی ملنے والی تھی ۔ ڈاکٹرس صحت یاب ہوۓ مریضوں کا ہار پہنا کر استقبال کر رہے تھے جبکہ حقیقت میں وہ خود قابل استقبال تھے ۔ مجھے ہار پہنا کر گیٹ تک لایا گیا ۔ میں نے ڈاکر کا شکریہ ادا کرنا واجب جانا ۔
"ڈاکٹر صاحب ، میں آپکا بہت احسان مند ہوں ۔ آپ نے مجھے نئ زندگی دی ہے ۔ میری بات سن کر ڈاکٹر مسکرا کر بولے" ۔
"ہم نے تو صرف اپنا کام کیا ہے ۔ اصل شکر گزار تو آپکو اپنے دوست مسٹر شوکت کا ہونا چاہۓ جن کے پلازمہ کی وجہ سے ہم آپکی جان بچانے میں کامیاب ہو سکے"۔
"تو کیا شوکت بھائ" ؟
شوکت بھائ جو تھوڑی دور پر کھڑے تھے ، قریب آ گۓ ۔ اگلی آواز انہیں کی تھی
"ہاں راکیش بھائ ۔ جماعت کے دفتر میں ہیلتھ چیک اپ کے دوران پتہ چلا کہ مجھے کورونا ہو گیا ہے ۔مجھے وہیں کورنٹائن میں رکھ کر علاج کیا گیا اور میں ٹھیک بھی ہو گیا ۔ یہاں آیا تو معلوم ہوا کہ کورونا کی وجہ سے آپکی حالت کافی سیریس ہو جکی ہے ۔ اسی دوران خبر آئ کہ کورونا کے ٹھیک ہوۓ مریضوں کے پلازما سے اس مرض کا علاج ممکن ہے ۔ میں نے فورا خود کو آگے کر دیا اور اللہ کا شکر ہے کہ میرا پلازمہ آپکے پلازما سے میچ کر گیا اور آپ کو اللہ نے شفا عطا کی ۔
" اور بھابھی ۔۔۔۔۔۔ ؟
میری زبان سے بے ساختہ نکلا
شوکت بھائ نے ایک ٹھنڈی سانس لی ۔
"وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں ۔۔۔۔۔ کہ کر شوکت بھائ دوسری جانب مڑ گۓ ۔ وہ اپنے آنسوؤں کو شاید ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے ۔
"شوکت بھائ" ۰۰۰۰۰
میں کچھ کہنے کو ہی تھا کہ شوکت بھائ بول پڑے" سب مصلحت خداوندی ہے ۔ وہی ہوتا ہے جو مالک کی رضا ہوتی ہے" ۔ چلۓ راکیش بھائ گھر چلیں کہ کر شوکت بھائ آگے بڑھ گۓ اور مجھے لگا کہ میں ایک زندہ لاش بن چکا ہوں جو اپنی ہی زندگی کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہو چکا ہے۔۔۔
اب آپ اپنی تحریر خود بھی کلچر بک لٹ پہ پوسٹ سکتے ہیں
پہ جائیں اور ساءین ان کریں
آپ کا کاونٹ بن جائے گا۔
اب آپ جب چاہیں اپنی تحریر لگائیں
کمنٹ کریں