
مصنف کی موتافسانہ نگار :ڈاکٹر محمد اشرف کمال۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا نام زونیرہ تھامیں نے اسے کبھی دیکھا نہیں تھابس فون پر ہی بات ہوئی تھیاس کے میسج بہت پرکشش اور پر لطف ہوتے تھےفیس بک پر مجھے اس نے میسج بھیجا،اس نے بتایا کہ وہ میری فین ہے اور میری شاعری کو پسند کرتی ہے، میری چیزیں شئیر بھی کرتی ہے۔اس نے مجھ سے میرا فون نمبر مانگامیں اپنے آپ کو کبھی کسی قسم کی دھانسو چیز نہیں سمجھا اسی لیے میں ہر کسی کو اپنا فون نمبر دے دیتا ہوں۔تو اُسے بھی دے دیا۔وہ اکثر فون پر کال کرتی اور مجھ سے گھنٹوں مختلف موضوعات پر بات کرتی۔مجھے بھی اس سے رابطے کی عادت سی ہوگئی تھی۔میں اس کے لیے باقاعدگی سے کال پیکیج کراتا کہ ’پیغامات‘ میں تسلسل اور ترتیب نہ ٹوٹے۔اس کے میسیجز مختلف موضوعات پر ہوتے جو پھیلتے پھیلتے آخر سکڑنے لگے اور زیادہ تر محبت کے فلسفے کے گرد گھومنے لگے۔کوئی دن ایسا نہیں تھا کہ ہمارا رابطہ نہ ہوتا ہو۔ایک ایسا اَن دیکھا رشتہ ڈویلپ ہوگیا تھا کہ جو میری طرف سے تو کبھی ٹوٹنے والا نہیں تھا، یا جسے میں کبھی بھلانے کا نہیں سوچ سکتا تھا۔کیونکہ مین سمجھتا تھا کہ وہ ایک منسلک رہنے والی لڑکی ہے۔ جس سے آپ بات کر کے یہ نہیں سوچ سکتے کہ آپ کا وقت ضائع ہوا ہے۔ اور پھر میری دنیا تھی بھی محدود سی۔ تو ایسے میں کسی بادِ صبا کا گزر خوشگوار جھونکا ہی مھسوس ہوتا ہے۔پھر ایک دن اس کا پیغام آیا کہ اس کی نئی کتاب لانچ ہورہی ہے۔ایک فائیو سٹار ہوٹل میں اوپننگ تقریب ہے۔وہ چاہتی تھی کہ میں بھی اس تقریب میں شامل ہو کر اسے داد دوں یا اسے داد ملتے ہوئے دیکھوں۔میں اپنا اکلوتا سوٹ پہن کر ہوٹل پہنچ گیا۔کئی لڑکیاں دروازے پہ مہمانوں کے لیے پھولوں کے ہار لیے کھڑی تھیں۔میں ہال میں پہنچا تو زونیرہ تیزی سے میری طرف آئی۔اس نے مجھے اور میں نے اسے پہچان لیا۔اس نے ہنستے ہوئے اپنا تعارف کرایا۔”میں ہوں آ پ کی۔۔میں نے بھی ہنستے ہوئے اس کا جملہ پکڑ کر کہا۔۔۔ فینوہ مسکرا کر بولی۔۔”جی ہاں جی ہاں“دل اس کی مقناطیسی شخصیت کی وجہ سے اس کی طرف کھنچا جا رہا تھا۔ایک سماجی سیاسی خاتون شخصیت کو بڑی گرم جوشی سے ویلکم کیا گیا۔وہ شاید کوئی مہمان خصوصی تھی۔تقریب شروع ہوگئی۔کئی لوگوں نے دھواں دار مضامین پڑھے۔مضمون نگاروں نے کتاب کے اقتباسات کے جو حوالے پیش کیے وہ اقتباس میرے لیے مانوس سے تھے۔جیسے میری ہی آواز ہوں۔پھر زونیرہ کو اسٹیج پر بلایا گیا۔اس نے بتایا کہ یہ کتاب اس کی سچی محبت کی عکاس ہے۔اس کتاب میں اس نے اپنے محبوب کے ساتھ ہونے والی تمام محبت کی داستان بیان کی ہے۔وہ گزشتہ ایک عرصہ سے اپنے محبوب سے جو دل کے جذبات ایکسچینج کرتی رہی اسے زونیرہ نے اس کتاب میں محفوظ کردیا جو اس کے محبوب کی والہانہ محبت کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔اور جب اس نے یہ بات کی کہ اب اس کا محبوب اس دار فانی سے ہمیشہ کے لیے اسے تنہا چھوڑ کر جاچکا ہے، تو ہال میں ایک افسردہ سے خاموشی چھا گئی۔لوگوں کی آنکھیں آبدیدہ ہوگئیں۔مگر میرے اندر ایک چیخ گونجی جو باہر بھی نہ نکل سکی اور اندر ہی محصور ہوکر واویلا مچانے لگی۔میں کیا کروں؟صورت حال عجیب سی ہوگئی تھی۔میں خارج کی دنیا سے یک سر کٹ گیا۔میرے اندر ایک طویل اور نا ختم ہونے والی ٹیسیں بیدار ہو رہی تھیں۔میں کچھ کرتا بھی تو کیا۔میں تو مر چکا تھا۔
کمنٹ کریں