
کرونائی افسانچہ: نئی زندگی
تحریر: تنزیلہ احمدTANZEELA.AHMED@YAHOO.COM
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شناسا آوازیں کانوں میں پڑیں تو ندیم نے موندی آنکھیں کھولیں۔ کسل مندی سے چارپائی سے اٹھا اور دھیرے دھیرے چلتا نیم روشن کمرے کی واحد کھڑکی تک جا پہنچا۔ شام کب کی ڈھل چکی تھی۔ گلی میں مدہم روشنی کا راج تھا۔ آنکھوں میں حسرت سموئے اس نے زنگ آلود سلاخوں کو تھام کر گلی میں جھانکا اور مانوس چہرے دیکھ کر کھل اٹھا۔ اگلے ہی پل تاسف کی گہری لہر نے بیمار وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اپنے نوعمر دوستوں کو بے فکری سے گلی میں کھیلتے دیکھ اس نے سوچا "انھیں کیوں سمجھ نہیں آرہی۔ جسے یہ معمولی سمجھ رہے ہیں وہ ہرگز معمولی نہیں ہے۔ کاش میں بھی وقت پر سمجھ جاتا، احتیاط کرتا تو آج یوں الگ تھلگ، امید اور نا امیدی کے مابین ڈول نہ رہا ہوتا۔"
دل مسوستا ہوا وہ پلٹا اور چھوٹے سے کمرے پر اچٹتی نگاہ ڈالی۔ ایک چارپائی، پرانی جستی الماری، ٹوٹا پھوٹا میز، اس پر دھری مٹی سے اٹی نصابی کتابیں، کھونٹی سے لٹکے کپڑے اور ضرورت کی چند ایک مزید چیزوں کے سوا اور کچھ بھی تو نہ تھا۔
---------------
کرونا کی علامات ظاہر ہوتے ہی وہ اسپتال جا پہنچا تھا۔ دوائیوں اور احتیاطی تدابیر سے نواز کر ڈاکٹر صاحب نے گھر میں ہی گھر والوں سے کٹ کر رہنے کی صلاح دی تھی۔ نہ وہ اسپتال کے قرنطینہ میں رہنا چاہتا تھا اور نہ وہ اسے رکھنے پر آمادہ تھے۔
وہ تنہائی جو اسے کبھی عذاب لگتی اب دس دن سے اس کی درینہ ساتھی تھی۔ دن کے اجالے اور رات کی تنہائی میں اسے کیا کیا نہیں یاد آتا تھا۔ سوچوں کے در کھلتے تو کبھی اسے پشیمانی کے اندھے کنویں میں دھکیلتے مگر پھر بہتری کی طرف مائل طبیعت امید کی ننھی کرنیں تھما کر اسے وہاں سے کھینچ لاتی۔
مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے گونجنے والی تیز آواز پر وہ چونکا۔ پچھلے چند دنوں سے جاری بے وقت آذانیں اس کے دل پر رقت طاری کر رہی تھیں۔ آنسوں کا سیلاب رواں ہوتا تو دل میں خوف خدا بھر آتا۔ پانچوں نمازوں کی پاپندی سمیت قرآن پاک کی تلاوت اس کی زندگی کا حصہ بن چکی تھی۔
دل میں تہیہ کر کے ایک عزم سے وہ الماری تک پہنچا اور آہستگی سے پٹ کھولا۔ دائیں ہاتھ والی دراز کے کونے میں رکھی چیزیں اٹھائیں اور اخبار کے نیچے سے کچھ نوٹ نکال کر گننے لگا۔ کافی عرصہ سے وہ دل میں ٹچ سکرین والے موبائل کی خواہش پالے بیٹھا تھا اور اس کے لیے جہاں داؤ لگتا وہاں سے پیسے بچا لیتا۔ جس مقصد کے لیے وہ ٹچ موبائل لینا چاہتا تھا اس سے تو دل تائب ہو چکا تھا۔
پورے چار ہزار احتیاط سے شاپر میں لپیٹ کر اس نے دروازے کے باہر دھری جوٹھے برتنوں کی ٹرے میں رکھ دیے۔ آج دن میں ہی تو اس نے آپا سے سنا تھا کہ جزوی لاک ڈاؤن کی وجہ سے ابا کو مزدوری نہیں مل رہی اور گھر کا سودا سلف ختم ہوا چاہتا ہے۔
--
ویب سائٹ کے فورمز کو جوائن کرنے کے لئے درج ذیل لنک پہ کلک کریں ۔ شکریہ
--
کمنٹ کریں