جب تک زندگی کے رمز اور کہنہ سے بھر پور آشنائی نہیں ہوتی متاع افکار کی جہتوں کی کوہ پیمائی ناممکن امر ہے کیونکہ یہ جہتیں خیالات و مشاہدات کی جہاں بینی اور دقت نظری کے مرہوں منت ہوتی ہیں۔ اس لیے جب فن کار کی نگاہ رقص حیات اوررموز کائنات کا دیدور ہوکررد عمل میں اپنی فکر کو قرطاس ادب پر فن پارے کی شکل میں اتارتا ہے تو اس میں زندگی کے ہر پہلو کا شیڈ صاف صاف دیکھائی دیتا ہے جس میں قاری نہ صرف اپنے معاشرے اور زندگی کے حسب و نسب کے عکس کو دیکھتا ہے بلکہ یہ فن پارہ اس کے لیے خیالات و اعمال کو سنوارنے و انبساط کا زریعہ بھی بنتا ہے۔ایسے میںکسی بھی فن پارے کو مقبولیت اس وقت تک نہیں ملتی ہے جب تک کہ اس کا دامن ندرت خیال اور طرز ادا کے گوہر سے بھرا نہ ہو اور یہ تب ہوتا ہے جب کوئی قلم کار اپنی فکر کے دریچوں کو وا کرتا ہے اور فکر کے رف رف کو کھلی ہوائوں میں اڑنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس سفر کے دوران زمانہ شناسی اور بہبودی آدم کا نصب العین جب اپنا پر کھولتے ہیں تو خودی اپنی جنوں خیزی کا رقص دیکھاتی ہے منجملہ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس عالم میں فکر لفظوں کا لبادہ زیب کرتی ہے اور قرطاس ادب پرایسے فن پارے کا نزول ہوتا ہے جو نہ صرف قاری کو سرشار کرتا ہے بلکہ اس کے تارِ نفس کو بھی چھیڑتا ہے جس کے باعث قاری بھی فن کار کے ساتھ زندگی کے تجزیاتی عمل میں شامل ہوجاتا ہے۔اسی لیے پروفیسرڈاکٹر عبدالمنان (سابق صدر شعبہ اردو:کلکتہ یونیورسٹی)معترف ہیں کہ فن کاروں کے تجربات و مشاہدات خیالی دنیا کی پرچھائیوں کے برعکس حقیقت کی تابندہ کرن ہوتے ہیں جو معاصر کوائف سے توانائی حاصل کرکے ایک نئے اجالے کا منبع بنتے ہیں۔
ادب کے میدان میں منان صاحب کو اس پر ایمان کامل ہے کہ تنقید تخلیق کی نہ صرف راہ متعین کرتی ہے بلکہ حسن کے زیور سے بھی اسے آراستہ کرتی ہے اوریہ خود ایک تخلیقی عمل ہے جس کے بطن سے تخلیقی فعالیت کی کونپلیں پھوٹتی ہیں جو قاری اور قلم کار کے درمیان رابطے کی کڑی بنتی ہیں نیزتنقید اچھے اور برے فن پارے میں تمیز پیدا کرنے کا ایک ایسا وسیلہ ہے جو فن پارے کی توضیح،تشریح،تفہیم اور تعبیر قاری کے سامنے پیش کرتی ہے۔اس کے روزن سے قاری تخلیق کار کے درون میں جھانکتا ہے۔یقیناً تنقیدی عمل کے دوران فن کار کے افکار کی شناوری کوئی معمولی عمل نہیں ہے۔اس کے لیے ناقدکے احساسات کی ہر مقناطیسی سوئی کی حساسیت کاتیز تر ہونا لازمی ہے۔ منان صاحب کے نزدیک فن پارے کا پس منظر اس کی روح کی شناوری کے لیے ضروری ہوتا ہے کیونکہ ان کے مطابق جب تک پس منظر کا علم نہیں ہوگا تب تک تجزیاتی بصیرت کھل کر رقص کرنے سے قاصر رہتی ہے جس کے باعث اس نتیجے پر پہنچنے میں کوئی قباحت نہیں ہوتی ہے کہ منان صاحب فن پارے کو صرف باطن کا رد عمل نہیں سمجھتے ہیں بلکہ اس رد عمل کا پس منظر بھی تلاش کرتے ہیں۔
’’فن کاروںکی نگارشات پر تنقیدی نشان لگانے کے لیے بوالہوسی سے پرے ہوکر حسن پرستی شعار کرنا اور فن پارے کی روح تک رسائی حاصل کرنے کے لیے پس منظر کی تہہ میں غوطہ لکگا کر آبدار موتی سے دامن افکار کو بھرنا تنقید کے اصل سے عہدہ بر آ ہونا ہے۔‘‘ ’’متاع فکر‘‘ ڈاکٹر عبدالمنان ص:۶
منان صاحب کے خیال میں جس آواز میں زندگی کی نمود کی توجیہات پوشیدہ ہوں اس کو قبولیت کی سند ملتی ہے۔یعنی موصوف ’’ادب اور زندگی ‘‘کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک صوبائی عصبیت کی فصیل اپنے احاطے میں تازہ ہوا کے جھونکے کو اندر آنے سے روکتی ہے جس سے حبس اور گھٹن پیدا ہوتی ہے۔ ادب میں حصار آمیزی سے اس کو جہاں کافی نقصان پہنچتا ہے وہیں ارتقائی کڑیاں دراز ہونے سے قاصر رہ جاتی ہیں۔زمانہ شناسی کے نغمے گانا ہر عہد میں بڑے قلم کاروں کا وطیرہ رہا ہے جو احساس کے نازک اندام کو نہ صرف بر انگیختہ کرتا ہے بلکہ اس کومحوئے رقص پر بھی مجبور کرتا ہے۔چونکہ ْجب فکر فن کی بیساکھی کا سہار الیتی ہے تو بجائے معذور دیکھنے کے یہ مزید توانا اور صحت مند دیکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منان صاحب کو ہمہ وقت یہ اعتراف ہے کہ فن کی شبنمی کرنوں سے فکر کی شادابی میں نہ صرف اضافہ ہوتا ہے بلکہ نکھار اس کا مقدر ہوجاتا ہے اور فن پر عبور مشق سخن سے آتا ہے۔جو بقول منان صاحب:’’چکی کی مشقت سے کم نہیں ہے۔‘‘
فن کارسے متعلق منان صاحب کا یہ خیال ہے کہ احساسات جب منتہا پر پہنچتی ہے تو اس میں اپنے آپ صوتی آہنگ پیدا ہوتا ہے جس سے نغمگی کے سوتے پھوٹتے ہیں ۔یہ سوتے جب بحر کنار کی صورت اختیار کرتے ہیں تو قاری رفتہ رفتہ سرشاری کے سمندر میں غرق آب ہوتا ہے۔یہ سب ہنر فطری صداقت اور فکر کی گہرائی و گیرائی کے سبب آتا ہے۔ اس کی فکری نہاں خانوں میں تجلیاں پوشیدہ ہوتی ہیں جو معنی کی جہاں کو تابناکی عطا کرتی ہے اوراس کا سینہ سوز و گداز کی جہاں آماج گاہ وہیں انسانیت کی تڑپ کا گہوارہ بھی ہوتا ہے۔اس سوز وگدازاور انسانیت کی تڑپ کے ملغوبے سے حکایت ہستی کی بات سناناکوئی بڑی بات نہیں ہے بلکہ بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ اس کو کس طرفگی ادا کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔جب تک اس کے طرفگی ادا سے دل کے تار نہ بج اٹھے اس میں وہ قوت نہیں ہوگی کہ وہ صدیوں کے عارض پر محیط ہوجائے۔
’’فطرت جب کسی فن کار کو عصر کی نباضی پر ہاتھ رکھنے کا ملکہ ودیعت کرتی ہے تو اس کی نگاہوں میں تیزی اور درک پیدا کردیتی ہے۔وہ دنیائے حیات کے سامنے باد سموم کی یورش سے نہیںگھبراتا ہے بلکہ اپنے چراغ عزم کو ایک نئی ضیاء پاشی دیتا ہے۔‘‘ ’’متاع فکر‘‘ ڈاکٹر عبدالمنان ص:۲۳
شاعر یا ادیب کے فکری شجر کی شاخوں پر کبھی بھی نفاق کے پھل نہیں اگتے بلکہ پیار و محبت ،امن و آشتی ،بہبودی آدم کے برگ و بار سے شاداب ہوتی ہیں جس کے بطن سے فروغ انسانیت کی راہ ہموار ہوتی ہیں۔جس سے ہوکر اس نیلے سیارے کی تباہی کو روکا جاسکتا ہے۔وہ فن پارے جوجگر خندہ کے ترجمان بن کر قار ی کے سامنے آتے ہیں ان میں قاری کے دل کو گرفت میں لینے کی قوت زیادہ ہوتی ہے اس کے حقیقی اظہار کی ہم جہتی اور دورس نگاہی زندگی کے ہر روشن دان کو وا کرتی ہے جس میں الفاظ کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔کیونکہ الفاظ کی تہوں میں معنوی جہت پوشیدہ رہتی ہے۔جب کئی الفاظ یکجا ہوتے ہیں تو ان کے معنوی جہتوں کے ملاپ سے ایک نئے جہان معنی کا سیلاب آتا ہے جس کے تہوں میں قلم کار کی فکر کی تموج موجزن رہتی ہے جس کے اندر ایک ایسی توانائی ہوتی ہے جو روایت کی بڑی سے بڑی فصیل کو زمین بوس کرسکتی ہے نیز اس کی پائیداری کے لیے شیشہ پلائی دیوار بھی بن سکتی ہے۔اس لیے ایسا کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی فن پارہ جب تک اپنے دامن میں معنی کی تہہ داری نہیں سمیٹتا پائیداری کی کسوـٹی پر کھرا نہیں اترتاہے۔معنی کے اس تہہ داری کو سمیٹتے ہوئے جس قلم کار کے اندر ہر طرح کے تصورات کو جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے وہ اپنے معاصرین میں ہی غالب نہیں ہوگا بلکہ کبھی کبھی کئی صدیوں کی بلندیوں پر بھی اپنی کمندیں پھینکنے میں کامیاب رہتا ہے اور اس کی تخلیق میں اگر تہذیبی پس منظر بالیدہ ہو تی ہیں تو وہ نہ صرف صدیوں کی مار جھیلنے کی طاقت رکھتی ہے بلکہ سماج اور معاشرے پر اپنا گہرا عکس بھی چھوڑ جاتی ہے۔جس سے تہذیب کی روایت کا تسلسل قائم و دائم رہتا ہے۔
جس طرح کسی رسالے کا مدیرقلم کار کے فکر ونظر کے عطیات کو اہل دانش تک پہنچا دیتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح ایک ناقد کسی فن پارے کی گہرائی تک اس کی رگوں میں دوڑتے لہوکی تپش،اس کی حدت،اس کے دبائو اور ان کے مجموعی اثرات کوقاری تک پہنچانے میں مدد کرتا ہے۔اس کے لیے اسے کسی بھی فن پارے پر تنقیدی رائے دینے سے قبل چند تحقیقی لوازمات پر نظر مرکوز کرنا ضروری ہوتاہے۔جیسے تقابل و موازنہ،قلم کار کے نظریاتی یا فکری رجحان اس کے اسلوبیات،تخلیق کار کے عصری تنقیدی رویہ،فن پارے کے متن میں موجود تاریخی و ثقافتی عنصروغیرہ ۔ان نکتوں کے تجزیاتی عمل کے بعد فن پارے کا جونچوڑ سامنے آتاہے وہ قاری اور ادب دونوں کے لیے امرت بن جاتا ہے۔منان صاحب اس پل صراط سے گذرتے ہیں۔’’تلاش و توازن‘‘ کے صفحہ نمبر ۸پروفیسر قمر رئیس کسی ادبی تخلیق پر تنقیدی نگاہ ڈالنے سے پہلے یہ نظریہ قائم کرتے ہیں۔
’’میرے نزدیک ہر ادبی تخلیق خواہ وہ کسی باطنی تجربے یا داخلی حقیقت کا اظہار ہو اور اس کا پیرایہ بیان کتنا ہی نازک اور تہہ دار ہو،کسی نہ کسی سماجی صورت حال کا عکس ہوتی ہے اور صرف عکس ہی نہیں وہ اس پر تبصرہ ہوتی ہے۔اس کی تفسیر بھی اور تنقید بھی۔‘‘تلاش و توازن: قمر رئیس ص:۸
پروفیسرڈاکٹرعبدالمنان صاحب ۲۰ویں صدی کے نصف آخر اور رواں صدی کے نصف اوّل کے ایسے اردو کے عالم ہیں جنہوں نے قرطاس ادب پر کئی نظریوں کو پلتے اور سمٹتے دیکھا ہے، دوران تنقید مذکورہ بالا تنقیدی میزان سے منحرف نہیں دکھائی دیتے ہیں۔غالباًایسا اس لیے کے دونوں ایک ہی عصر میں سرگرم رہے اور دونوں کے دلوں میں ترقی پسند تنقیدی رویے کے لیے نرم گوشہ رہا۔!
کمنٹ کریں