
افسانہ : ٹفن باکسافسانہ نگار : مہر افروزkathiawari.afroza@gmail.com-----------------------عید کی تیاریوں میں سب سے پہلی تیاری گھر کی صفایء کی ہوتی ہے اور وہ بھی سب سے پہلے کچن کی ۔خاتون خانہ کی جاگیر اور اسکی حکومت کا تخت ہمیشہ باورچی خانہ، رسویء گھر، یا کچن ہی ہوتا ہے ۔اسے چمکاےء رکھنا اسکا شوق اور کبھی کبھی جنون بن جاتا ہے ۔
سکینہ بھی یہی کررہی تھی ۔اپنی ملازمہ اور چھوٹی بیٹی کے ساتھ ملکر کچن صاف کروارہی تھی ۔کچھ بڑے بڑے باکس رکھے تھے جس میں غیر استعمال شدہ برتن اوپر اٹھا کر رکھ دئے گئے تھے ۔اس نے اپنے شوہر کو آواز دی کہ وہ آکر باکس اتار دیں تاکہ اس میں موجود برتنوں کو چمکا کر دھوپ میں سکھا کر دوبارہ بکسوں میں بھر کر رکھ دئے جائیں ۔
پہلا بکسہ اس نے کھولا اپنی حرص پر پچھتائی کہ اتنے سارے برتن بیکار میں جمع کر رکھے تھے ۔یہ اسوقت کی بات تھی جب گھر بھرا پُرا تھا ۔بڑے دونوں بچے ساتھ تھے ۔ساس رہتیں تھیں ۔ساس کو ملنے دیور دیورانی نند سب آیا کرتیں ۔عید کا مزہ تو اسی وقت آتا۔۔
وقت کیسے مٹھی میں بند ریت کی طرح پھسل گیا پتہ ہی نہیں چلا ۔بچوں نے تعلیم مکمل کرلی، اپنے پیروں پر کھڑے بھی ہوگئے، انہوں نے بڑے دونوں بچوں کی شادیاں کردیں۔ دونوں نے اپنی اپنی گرہستی الگ بسالی ۔پچھلے سال ساس بھی عدم سدھار گئیں ۔اب بس تین لوگ تھے ۔وظیفہ یاب شوہر، چھوٹی بیٹی جس کی شادی ہونا باقی تھی اور وہ خود ۔اس سال عیدپر تو کوئی آنے والا نہیں تھا، کروونا کا قہر جو پھیلا ہوا تھا ۔اس نے یہی بہتر سمجھا کہ برتن دھوکر سکھا کر دوبارہ بکسہ بھر کر اوپر رکھوادے ۔
دوسرابکسہ اس نے کھولا تو اس میں سے کچھ یادیں نکل آئیں ۔اماں کا چاندی کا پاندان ۔جڑی بوٹیوں والا ڈبہ، اماں کو یاد کرکے اسکی آنکھیں چھلکنے کو تھیں، کہ اچانک بکسے میں موجود دو کھانا گرم رکھنے کے ملٹن ٹفن باکسز پر اسکی نگاہ پڑی، اور رکے آنسو بہہ نکلے ۔کتنے ارمانوں سے اپنی ضرورتوں کو مار مار کر اس نے یہ دو ٹفن بکس اپنے بڑے دونوں بچوں کے لئے خریدے تھے ۔مگر اسکے شوہر نے ان ٹفن بکسوں کو نمائیشی خانے میں کراکری کے ساتھ رکھوا دئیے ۔یہ اعلان کرکے کہ نند کے دونوں بچوں اور دونوں بڑے بچوں میں سے جو کوئی 99% کریگا اسی کو بکس ملیگا ۔کم مارکس لینے والوں کو نہیں ملیگا ۔اسکے بچے جو گرم ٹفن بکس کے کو دیکھ کر بہت خوش تھے، انکے چہرے اتر گئے ۔
اس سال کے امتحانات ہوئے، چاروں میں سے کسی نے بھی ننانوے فی صد مارکس نہیں لئے ۔دس بارہ سال گزر گئے ۔بڑی بیٹی ڈاکٹر بن گئی، بیٹا انجنیر بن گیا ۔نند کے بچوں نے ایم سی اے اور ایم بی اے کرکے ملازمت اختیار کرلی ۔بچوں کی شادیاں بھی ہوگئیں ۔کراکری ٹوٹتی بدلتی رہی ۔ٹفن بکسز وہیں رکھے رہ گئے ۔ساس کے انتقال کے بعد اس نے ساری غیر ضروری چیزیں ان دو بڑے بکسوں میں بھرواکر اوپر رکھوادیں ۔
۔صبح سے کام کرتے کرتے وہ سب تھک گئے تھے ۔آخری بکسہ بند کرنا باقی رہ گیا تھا ۔اچانک اس نے اپنی ڈاکٹر بیٹی کی کار کا ہارن سنا اور باہر آگیء ۔ماں کا تھکا چہرہ دیکھ بیٹی کچن میں لے آئی تاکہ اپنے ساتھ لایا کھانا پروس سکے ۔کھلے بکسے میں موجود ٹفن بکسز کو دیکھ کر اسکی بیٹی کا چہرہ سرخ ہوگیا ۔اور وہ چلائی ۔"امی آپ نے ان ٹفنز کو ابھی سنبھال رکھا ہے؟ کس کے لیے ننانوے فی صد لانے والوں کے لیے؟ کیا زندگی کے لیے مارکس اتنے ضروری ہیں؟ ہم بنا ننانوے فی صد کے کامیاب اور اچھے انسان نہیں بنے "؟
اس نے جھک کر بکسے میں سے وہ دونوں ٹفن بکس نکالے اور ملازمہ کے حوالے کرتے ہوئے کہا ۔یہ تم اپنے بچوں کے لئے لے جاؤ ۔تاکہ وہ پڑھ لکھ کر اچھے انسان بنیں ۔پھر وہ تیزی سے پلٹ کر باہر نکل گئی ۔میں نے دیکھا اس کی آنکھیں چھلکنے کو بے تاب تھیں۔
----------------------------------
ویب سائٹ کے فورمز کو جوائن کرنے کے لئے درج ذیل لنک پہ کلک کریں ۔ شکریہ
کمنٹ کریں