
تحفہ
کیپٹن زین العابدیں خاں
-------------------
زندگی کبھی کبھی کروٹ بدلتی ہے ۔منوج کمار نے پونہ سے انجنیرنگ کیا ،اُس کا باپ تو غریب تھا لیکن کسی طرح زمین بیچ کر اُس کے اخراجات کو پورا کیا ،اب اُس کے سامنے ایک نیا آسمان تھا ،خوابوں کا ایک سلسلہ اور سارے خوابوں پہ وہ چھلانگ لگاتا گیا ۔کہاں دسویں یا بارھویں کے بعداُس کے باپ نے سوچا تھا کہ وہ پولس میں بھرتی ہوجائے گا اور کہاں منوج ایک تناور درخت کی طرح اپنی اونچائی دن بہ دن بڑھاتا گیا ۔دسویں جماعت میں فرسٹ کلاس ،بارھویں جماعت میں فرسٹ کلاس ،انجنیرنگ کالج میں بھی مفت میں داخلہ ہوگیا ابھی آگے آسمان اور بھی تھا ۔سوچ کے کسی حصہ میں امریکہ پل رہا تھا کہ وہ کسی طرح امریکہ جائے گا ،وہاں نوکری کرے گا تب گھر کی حالت بدلے گی، تب خاندان بدلے گا اور تب غریبی سے جان چھوٹے گی اور وہ اپنی امید یا اپنے خوابوں پہ مکمل یقین کر چکا تھا کہ کوئی نہ کوئی سافٹ وئیر کمپنی اُسے امریکہ بھیجے گی اور امریکہ کا ویزہ مل جائے گا اور بہار کی سڑکوں پہ بھٹکنے سے وہ بچ جائے گا۔
ارچنا نام کی لڑکی اُس کی زندگی میں بارھویں کلاس میں داخل ہوگئی تھی ،وہ ایک اچھے خاندان کی لڑکی تھی ،درمیانہ قد تھا ،بہت لمبے بال تھے ۔وہ اُس کی ذہانت سے بہت متاثر تھی ،اکثر وہ اپنے مضامین پہ بحث کرتے ،اپنے کتابوں کے نوٹس ایک دوسرے سے تبادلہ کرتے اور پھر جب لڑکیاں کسی کو چاہتی ہیں تو پیار میں اُس پہ حکومت چلانے لگتی ہیں ۔دونوں کا داخلہ پونہ کے انجیرنگ کالج میں ہوا ،دونوں بہت خوش تھے کہ اب چار سال کا ساتھ رہے گا ۔منوج لڑکوں کے ہاسٹل میں اور ارچنا لڑکیوں کے ہاسٹل میں لیکن کلاس روم تو ایک ہی تھا ۔یہاں بھی ارچنا کا پیار اب دھیرے دھیرے بڑھنے لگا ،اب کہی بھی وہ دونوں ساتھ رہتے ،موٹر سائیکل منوج چلاتا اور ارچنا اُس کے پیچھے بیٹھی ہوتی۔اِن دونوں کے ہاسٹل الگ الگ تھے مگر ہر پل ساتھ ساتھ۔رات کا کھانا اکثرساتھ کھاتے بلکہ ایک ہی پلیٹ میں ۔پونہ شہر کی فضا روس کی طرح ہے نہ گرمی نہ سردی ہمیشہ معتدل موسم ۔اِس شہر پہ پچھمی ملکوں کا بہت زیادہ اثر ہے اِس لیے عرب ممالک کے بچے کثیر تعداد میں یہاں پڑھتے ہیں ۔یہ نارتھ ایسٹ جیسے آسام یا عرب ملکوں کے لیے شان کی بات ہے کہ اُن کا بچہ پونہ میں پڑھتا ہے ۔یہ پورا شہر پہاڑوں پہ بسا ہے ،یہاں بارش بھی فوار کی طرح ہوتی ہے ۔
ایک دِن ارچنا اور منوج دونوں سنگھ گڑھ کے قلعوں کی طرف چلے گئے ،یہ پورا قلعہ سنگھ گڑھ کے پہاڑ پہ ہے ،چاروں طرف گھنا جنگل۔ وہ دونوں کافی پہاڑ کے اوپر چڑھ گئے اور ایک جگہ پتھر پہ بیٹھ گئے ۔نیچے نشیب میں بہت بڑا ڈھلان تھا ،ذرا سا پائوں پھسلا تو موت یقینی تھی۔ وہ دونوں اِدھر اُدھر پہاڑوں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔اِس کے بعد جب اندھیرا پھیلنے لگا تو منوج کا ہاتھ پہلے ارچنا کے
کندھے پہ آیا پھر پھسل کے نیچے اُس کے سینہ کے اُبھار پہ گیا ۔اب دونوں کے بدن میں طوفانی ہوائیں اُٹھنے لگیں اور وہ دونوں قریب بہت قریب ،اب ایسا لگا جیسے بادل آئیں گیں ،بجلی کڑکے گی اور زوروں سے بارش شروع ہوجائے گی۔جب ارچنا نے اپنے بدن اور چاہت کے کالے بادلوں کو دیکھا تو اچانک اُس سے الگ ہوکے بولی ،
ــ’’منوج یہ جو میرا کنوارا بدن ہے اِسے میں سنبھال کے اپنے ہونے والے شوہر کے لیے رکھی ہوں ۔اگر آپ کو میرا کنوارا پن ختم کرنا ہے تو ایک شرط پہ کر لو کہ تمہارا جب دل بھر جائے اور میرا کنوارا پن ختم ہوجائے تو مجھے اِس پہاڑی سے نیچے ڈھکیل دینا کیونکہ یہی ایک کنوارا بدن کا تحفہ ہے جو میں اپنے ہونے والے شوہر کو دونگی ۔‘‘
منوج کا اچانک چہرہ اُتر گیا ،اُس کے اندر کے سارے طوفان ختم ہوگئے اور وہ ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح وہاں سے اُسے لے کر واپس مُڑ گیا ،راستہ میں دونوں نے کوئی بات نہیں کی۔
کچھ دنوں کے بعد بات آئی گئی ہوگئی،دونوں ویسے ہی ساتھ رہنے لگے ۔انجنیرنگ ختم ہوتے ہی دونوں اِدھر اُدھر نوکریوں کے تلاش میں دوڑنے لگے لیکن منوج یہاں بھی بازی مار گیا ۔اُس کو ہندوستان کی ایک سب سے بڑی آئی ٹی کمپنی نے امریکہ کے لیے چُن لیا۔پاس پورٹ تو اُس کے پاس تھا ،اب امریکہ کا ویزا بھی مِل گیا ۔اب وہ اپنے خوابوں کے آخری سیڑھی پہ تیزی سے چڑھنے لگا ۔وہ امریکہ آگیا، یہاں کی دنیا ہی الگ ،ہر آدمی وقت کا پابند ،یہاں کوئی موٹر سائیکل نہیں ،جتنے آدمی اتنے ہی کاریں ،سڑکیں اتنی چوڑیں کہ ہوائی جہاز اتر جائے ۔پہلے وہ کچھ پیدل چلا ،اِس کے بعد اُس نے ایک کار کرایہ پہ لے لی ۔امریکہ دنیا کا آدھا ،آبادی بہت کم ،ہر طرف پہاڑ ،ریگستان اور سمندر کا بیکراں حصّہ۔اب اُسے تقریبًا دو لاکھ روپیہ تنخوا ہ ملنے لگی ۔زندگی اچانک بدل گئی ،یہاں بھی اُسے ایک لیڈی دوست مل گئی۔ زبان میں تھوڑی بہت دقت ہوتی ہے لیکن دل کی زبان تو الگ ہوتی ہے ۔ہندوستان میں ہم زیادہ سے زیادہ عورتوں سے ہاتھ ملاتے ہیں یہاں کی عورتیں سیدھے فرنچ بوسہ پہ اُتر آتی ہیں ،یہاں جنسی لگائو کوئی گناہ نہیں ،یہاں ساری لڑکیوں کے بوائے فرینڈ ہونا ضروری ہے جس کے جتنے بوائے فرینڈ زیادہ ہے وہ اُتنا ہی مقبول،عورتیں کیا ہیں ایک آزاد پنچھی،جہاں تک آسمان میں اُڑ جائیں کوئی روک ٹوک نہیں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ وہ اپنے ہی گھر میں ایک کمرہ میں ہوتے ہیں ،ماں باپ کو کوئی اعتراض نہیں ۔اب ایسے ماحول میں منوج کا آنا ایساہی تھا جیسے بہار سے نکل کر وہ ایک خوشنما باغ میں آگیا ہے اور یہ لڑکیاں اِس باغ کی تتلیاں ہیں ۔یہاں جو اُس کی فرینڈ بنی اُس کا نام تھا ہونیلا ،ہونیلا ایک ندی کا نام تھا ،اُس کے سُنہرے بال ہمیشہ کُھلے رہتے تھے ،وہ ہمیشہ ہاف پینٹ پہنتی تھی ۔وہ دونوں ہوٹلوں میں ساتھ ساتھ کھانے لگے تھے ۔یہاں کا کھانا بغیر مسالہ کے ،برگر ،پِزا ۔ہندوستانی ہوٹلوں کے ٹیبل پہ صرف نمک ہوتا ہے ،یہاں تو شہد بھی ہوتا ہے۔ یہاں بیشتر ہوٹلوں میںبفے سسٹم ہے ،دس ڈالر دیجیے جو مرضی کھائیے ۔ہونیلا اب منوج کو اپنے ساتھ کار میں لیے گھومنے لگی تھی ۔یہاں جہاں مرضی رہیے ، اگر آپ کو ندی کے کنارے رہنا ہے یا پہاڑ پر تو وہاں کرایہ کی زمین ہے ،آپ ہوم ڈپو(ہارڈویر کا مال) پورا گھر ٹرک پہ اُٹھا کے لایئے اور ندی یا پہاڑ پہ اُس کے نٹ بولٹ فِٹ کر لیجیے ،ایک دن میں گھر تیار ۔ندیوں کے لہروں کے پاس یا پھر پہاڑوں کے خوشبو میں
آپ میٹھی نیند لیجیے ،یہ دینا الگ۔
بہار سے آیا منوج کبھی بھی ندی کے کنارے یا پہاڑ پر نہیں گیا ، بس کام ،سونا اور کھانا یا کبھی کبھی اپنے گائوں میں کسی کو فون لگانا ، کچھ
مختلف زندگی ،اچانک تو کوئی بدل نہیں سکتا ۔
ایک دِن ہونیلا نے اُس کا ہاتھ پکڑ کے کہا،
’’تم بہت بور آدمی ہو ،چلو ایک دِن میں تم کو یہاں کے پہاڑوں کی سیر کرائونگی ،یہاں کے پہاڑ ،جھرنے ،ندیاں دیکھو کتنے خوبصورت ہیں ،کسی گندگی کا نام و نشان نہیں ۔‘‘ اُس نے کہا ٹھیک ہے ہم چلیں گیں۔اتوار کے دن ہی ہونیلا اپنے سنہرے کھلے بالوں کے ساتھ ہاف پینٹ میں اُ س کے پاس آگئی اور وہ دونوں پہاڑوں کی سیر پہ نکل گئے ۔کار ہونیلا چلا رہی تھی ،کار کی رفتار سو کلو میٹر سے زیادہ ،یہاں کی کاریں ندی کے بہائو کی طرح ایک ہی رفتار سے چلتی ہیں ،شہروں میں اِدھر اُدھر کوئی جانور نہیں جو سڑک پہ آجائے ۔وہ دونوں اب گھیرادار پہاڑ کی چڑھائی پہ تھے ۔سڑک کے کنارے جگہ جگہ بیٹھنے کی جگہ ،پہاڑ کے نیچے صاف شفاف ندی ،جھرنے ،ہونیلا اُسے لے کر ایک سنسان جگہ پہ آگئی ،یہ جگہ ایک پہاڑ کی چوٹی تھی ،پہاڑ کے نیچے گھپ اندھیرا اور بڑی کھائی تھی ،جہاں پائوں پھسلا زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ دونوں کار سے باہر نکل آئے،ہونیلا نے اُسے باہوں میں بھر کر اُس کے ہونٹوں میں اپنے ہونٹ ڈال کر فرنچ کِس لیا ۔اس کے بعد دونوں کے بدن میں طوفانی ہوائیں چلنے لگیں ،اب کوئی رُکاوٹ نہیں تھی ،کوئی ارچنا کی طرح شرط نہیں تھی ۔جب طوفان تھم گیا اور ہونیلا اپنے کپڑے بدلنے لگی تو منوج کو اُس سے اتنی نفرت پیدا ہوئی کہ وہ اپنی پوری طاقت سے اُسے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے ڈھکیل دیا۔
کمنٹ کریں