
لاک ڈاؤن ۔ جذبہء حُب الزوجہ اور قیدِ بامُشقت
تحریر۔ احمد شہزاد
لاک ڈاؤن ۔ جذبہء حُب الزوجہ اور قیدِ بامُشقت
تحریر۔ احمد شہزاد
حکومتی لاک ڈاؤن کا اعلان ہوتے ہی بیگم نے لاؤنج میں مشیرِاطلاعات کے انداز میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ گھروہ واحد جگہ بلکہقلعہ ہے جس کی فصیلوں میں ہم سب محفوظ ہیں۔ اس موقع پر جذبہء حُب البیت پرجذباتی تقریر بھی کی اور کہا گھر کا ہر فرد ایکسولجر کی طرح اس محاذ پر خون کا آخری قطرہ بہائے بغیر اپنے فرائض انجام دینے کا پابند ہوگا۔ اس سارے عمل میں آئسولیشن اورجسمانی فاصلہ یعنی keep distance کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگا بعدازاں کرونا وائرس کی ہولناکیاں اور تباہ کاریاں اس طرح بیان کیں کہمجھ سمیت معصوم بچے بھی سہم گئے۔ مزید کہا کہ دو محاذ اہم ہیں ایک صفائی اور دوسرا کچن، کام والی کو چھٹی دے دی گئی ہےلہذا صفائی کی ذمہ داری گھر کے سربراہ پر ہو گی لیکن میں خود نگرانی کروں گی۔ باقی ہدایات روزانہ کی بنیاد پر گوش گزار کی جائیں گی۔پھر میری طرف دیکھ کر کہا کہ آپ گھر کے سربراہ ہیں اس موقع پر آپ بھی کچھ فرما دیں۔ پہلے تو بچوں کی طرف دیکھا جو سہمے ہوئےتھے پھر خود حوصلہ کر کے بمشکل کہا "میرے عزیز گھر والو گھبرانا نہیں" اتنا کہنا تھا کہ بیگم نے گھوری ڈالتے ہوئے کہا "ایڈےتسیں وزیرِاعظم"۔
حالات کی سنگینی کا اندازہ اس وقت ہوا جب بیگم نے الماری سے بیڈ شیٹ اور کمبل نکالا اور کہا کہ keep distance کا تقاضا ہے کہمیں الگ رہوں اور بچوں کے پلے روم میں جارہی ہوں۔ اس پر میں نے کہا کہ آپ بیڈ پر سو جائیں میں صوفے پر دراز ہو جاؤںگا۔ بیگم نے ترنت جواب دیا کہ میں آپ کے جذبہء حُب الزوجہ سے خوب واقف ہوں اور یہ جذبہ کسی بھی وقت بیدار ہو سکتا ہےبہتری اسی میں ہے کہ آئسولیشن میں رہا جائے۔
اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی کمرے کی صورت
نہ وہ گھر کی صورت ہے نہ ڈربے کی صورت
اگلی صبح مابدولت بیڈ پر ہی تھے کہ بیگم کی آواز پر آنکھ کھلی نیم دراز آنکھوں اور خوابناکی فضا میں دیکھا کہ بیگم ہاتھ میں مگ لیے سرہانےکھڑی ہیں پوری ازدواجی زندگی میں پہلی بار بیڈ ٹی پانے کے تصور سے کمر کا لحاظ کیے بغیر فوراً چوکڑی مار کر بیٹھے۔ بیگم نے مگ ہاتھ میںپکڑایا اور کہا سیدھے باتھ روم میں جائیں اُونچی اُونچی آواز میں غرارے کریں نہ کہ سنک میں پانی بہا دیں اور یہ غرارے صبح شامکرنے ہیں ۔ ہمارے بچپن میں ٹی وی پر ایک ایڈ آتا تھا صبح بناکا شام بناکا، صحت کا پیغام بناکا، اب کیا ہے صبح غرارے شامغرارے، صحت کا پیغام غرارے۔ یاد رہے کہ بیگم کے غرارے کی طرف دھیان بالکل نہ جائے۔ غراروں سے مُکتی ملی تھی کہ بیگمنے ہمارے سر پر تولیا ڈالا اور کہا کہ کچن میں پانی گرم ہے دس منٹ تک سٹیم لیں۔ دل تو ہمارا کیا کہ تولیے سے سرنکال کر بیگم کو"چا " کریں مگر آواز آئی اُونچے اُونچے سانس لیتے ہوئے سٹیم لیں۔ ہم نے کہا کہ اُونچے اُونچے سانس صرف پاکستانی فلمی ہیروئنیںہی لے سکتی ہیں ہم تو آپ کے کمرے سے جانے کے غم میں صرف آہیں بھرسکتے ہیں۔
ناشتے سے فارغ ہوتے ہی بیگم نے کمانڈر سیف گارڈ بنتے ہوئے صفائی کی ہدایات جاری کیں۔ ہرفرد ایک ایک گھنٹے بعد ہاتھ کلایئوںسمیت دھوئے گا پھر ڈیٹول اور بلیچ ملے پانی کا محلول دیا کہ سارے گھر کا فرنیچر، قالین، پردے، سیڑھیوں کی ریلنگ اور جہاں جہاںہاتھ لگنے اور نہ لگنے کا امکان ہے وہاں وہاں اسفنج کا پوچا پھیردیں۔ ہم نے کہا کہ جیلر صاحبہ! حکومت نے گھر رہنے کا کہا ہے نہ کہقیدِ بامشقت کا پروانہ جاری کیا ہے۔ اس سے پہلے کہ بیگم کی گھوری کا سامنا ہوتا یہ گنگناتے ہوئے چل دیئے۔
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
بیگم نے سامان کی لسٹ دیتے ہوئے کہا کہ باہر جائیں تو ہاتھوں پر گلوز، چہرے پہ ماسک،آنکھوں پر عینک اور سر پہ ٹوپی ضرور ہو۔ ہمنے عرض کیا اب کان ہی رہ گئے، کیا ان میں روئی نہ ٹھونس لیں؟ ایسے موقع پر ہمارے لیے ایک عدد گھوری تیار رہتی ہے سو ہمنے خندہ پیشانی سے سہی۔ سامان لے کر آتے ہی ہاتھ دھونے کا حکم صادر کیا پھر کہا کہ تمام سامان کو سینیٹائز کریں سبزیوں اورپھلوں کو سرکے ملے پانی سے دھوئیں۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد جب کھانا کھانے بیٹھے تو پتلی شوربے والی دال اور عجیب سی دوروٹیاں، ہم نے مسکین صورت بنا کر دیکھا تو گویا ہوئیں صبح جیلر کس کو کہہ رہے تھے اب بھگتیں۔
بیگم نے صفائی کی اتنی بار تلقین کی کہ نفسیاتی مریض کی طرح ہاتھ دھونے کی عادت ہو گئی متعدد بار ہاتھ دھونے سے ہاتھ کیا کلائیاںبھی چٹیاں ہو گئی ہیں اب کہہ سکتے ہیں چٹیاں کلائیاں او بے بی ساڈی چٹیاں کلائیاں۔ بیگم صفائی کے بارے میں بہت کونشیئس ہیںنہ صرف گھرکے اندر بلکہ باہر لان میں سپرے کا اہتمام کرایا مرغیوں کا ایک ڈربہ جس میں پلے ہوئے پانچ موٹے تازے چوزے تھےحکم دیا کہ ان کا دروازہ کھول دیں جہاں چاہیں چلے جائیں بہتیرا کہا کہ ذبح کر کے پکا لیتے ہیں کچھ امیون سسٹم ہی بہتر ہو گا کہنےلگیں نہیں، وائرس کا کچھ پتہ نہیں دروازہ کھلتے ہی وہ بھی شاید مالکن کے ڈر سے کہیں نکل گئے۔
حسرت اُن چوچوں پہ جو بِن پکے بھاگ گئے
بیگم نے بطور مشقتی کام لیتے ہوئے نہ صرف گھر کی سیٹنگ بار بارچینج کرائی بلکہ کمروں کے پردے بھی تبدیل کرا کر اگلی پچھلی ساریکسریں نکال لیں۔ چھوٹے موٹے کام جنہیں ایک عرصے سے ٹالتے آ رہے تھے وہ اپنی نگرانی میں ٹھیک کرائے۔
بیگم کی محبت میں بے بس شوہروں نے
وہ کام بھی کیے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
صفائی ستھرائی کے حوالے سے صرف ہماری ہی نہیں بلکہ بیگم کی سہلیوں کے شوہروں اور بچوں کی بھی شامت آئی ہوئی ہے۔تمام سہیلیوں نے لاک ڈاؤن کے نام سے ایک واٹس اپ گروپ بنایا جس میں نت نئی حفاظتی تدابیر اور ٹوٹکوں کے حوالے سےروزانہ کا پلان تیار کیا جاتا ہے۔ کچھ شوہروں سے بات ہوئی تو وہ بھی ایسی ہی باتوں کے دکھڑے رو رہے تھے ایک تو کہنے لگا اسکی بیگم نے نمازوں کے ساتھ نوافل بھی ادا کرنے کا کہہ دیا ہے اور تو اور تسبیح پکڑا کر وظیفے بھی شروع کرا دیے ہیں اب جس کاوظیفہء زوجیت موقوف ہوا ہو وہ کیا وظیفے کرے۔ دوسرا کہنے لگا مشکل حالات سے دوچار ہوں گھریلو سٹاک ایکسچینج بند یعنی مندیکا شکار ہے اسی باعث نقطہء کِھلاؤ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ تیسرے نے دکھڑا رویا کہ اپنی بیگم کو لڈو کھیلنے کی دعوتدی اس نے کہا تمھیں قریب بیتھنے کا بہانہ چاہیے لڈو کم کھیلنی ہے لاڈو لاڈو کہہ کر لاڈ کرنے شروع کر دینے ہیں۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے دماغ بھی کمینی کمینی خواہشات کی زد میں ہے گھرکے سامنے ایک خوبصورت حسینہ جو بزعمِ خود قطرینہ کیفہے سارا دن بالکونی میں کھڑی رہتی ہے اور لفٹ بھی نہیں کراتی، دل کرتا ہے اس کی ڈور بیل بجاؤں جیسے ہی وہ دروازہ کھولےزور سے چھینک مارکے بھاگ جاؤں اور وہ قطرینہ کم از کم چودہ دن قرنطینہ میں تو رہے۔ پچھلی گلی میں ایک شیخ صاحب رہتے ہیںسلام کا صحیح طرح جواب تک نہیں دیتے جیسے اس میں ان کا کچھ خرچ ہوتا ہے ان کے دروازے پر بھی پانچ چھ استعمال شدہماسک پھینکنے کو دل کرتا ہے۔
جب سے لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے بیگم طوطا چشم سی ہو گئی ہیں ساتویں روز بیگم کام سے فارغ ٹی وی لاؤنج میں آ کر بیٹھیں تو ہمنے محبت بھری نظروں سے دیکھا تو بڑی بے اعتنائی دکھائی اور کہا کہ نظریں بھی سینیٹائز ہونی چاہیں پھر منیر نیازی کی زبان میں کہاکہ
محبت اب نہیں ہو گی
یہ کچھ دن بعد میں ہو گی
گزر جائیں گے جب یہ دن
یہ اُس کے بعد میں ہوگی
ہم نے بھی منیر نیازی کی زبان میں ترکی بہ ترکی جواب دیا
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے اعتنا کا گھر ہے اور ہم ہیں دوستو
بیگم نے کہا بیت بازی چھوڑیں اور بچوں کو دیکھیں، ہم نے کہا خود کو دیکھیں کہ بچوں کو دیکھیں۔ ہم تو اپنے آپ سے بیزار ہیں۔بیگم نے کہا فیس بُک کھول لیں حسین چہرے دیکھ کر کِھل اُٹھیں گے۔ اس پر آہ بھرتے ہوئے کہا فیس بک پر ہر حسین چہرے نےسوٹ سے میچ کیا ہوا ماسک چڑھا کر تصاویر اپ لوڈ کی ہوئی ہیں اب ماسک زدہ ماسکوٹ دیکھنے سے رہے۔
پندرہویں دن لاک ڈاؤن کے خاتمے کی خبر سُننے کی امید لیے ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہےکہ حکومت اعلان کرے۔ اتنی دیر میں بیگمواٹس اپ کال کانفرنس کے بعد گویا ہوئیں کہ لاک ڈاؤن کے متعلق حکومت فیصلہ کرے یا نہ کرے لیکن موجودہ غیر یقینی صورتحالکو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم سہیلیوں نے فیصلہ کیا ہے گھریلو لاک ڈاؤن غیر معینہ مدت تک بڑھا دیا جائے۔ ہوش اُڑانے والی خبر سُننےکے بعد شوہروں نے بیگمات کی طرف ملتجیانہ میسج بھیجا تو ٹوں ٹوں کرتا میسج آیا۔
فی الحال آپ کو یہ مطلوبہ سہولت میسر نہیں
کمنٹ کریں