
آج ذکر یار چلے۔۔
آج ذکر یار چلے۔۔۔
شاعر : منو
میں جو بحر سے وزن تک
بلکل لاعلم ہوں
مسلسل یہ ہی سوچ رہا ہوں
نظم لکھوں یا نثر؟
یا پہر یوں کروں کہ
فیض کی ساری نظمیں
اکھٹی کرکے ان میں سے
ایک مصرعہ تشکیل کروں
اور پہر اس ایک مصرعہ مین
تم سے محبت کا اظھار کروں!
تم جو فیض کی بڑی مداح ہو
تم جو جہان سے یکسر جدا ہو
تم جو سراپا حسن ہو
تو سراپا عشق بھی!
سنو غزل نما لڑکی!!!!
میں چاہتا ہوں
تمہارے ہونٹوں پہ قہقے ہوں
تمہاری آنکھوں میں نئی رتوں کے
ہزاروں حسین سپنے ہوں
تمہارے چھرے پر ہمیشہ
خوبصورت ہنسی ہو
تو اداسی کے چمن سے نکلے اب
اور موسم بہار کی طرف آئے
پرفیوم کی بوتل جیسی نازک لڑکی
میں چاہتا ہوں
تمہارا دل اک بار پہر سے
محبت میں مبتلا ہو جائے!!!!
کمنٹ کریں