
اپنے حصے کا سکھ
اپنے حصہ کا سکھ
شموکو آزادی سے گھومنے کے لئے چھٹی ملی
ہے۔بیوی بچوں کے ساتھ شہر کے گارڈن اور چڑیا گھرکی سیر کرے گا، اچھے سے ہوٹل میں کھانا
کھلائے گا۔گاڑی تو روز ہی چلاتا ہے لیکن آج اسے گاڑی چلاتے ہوئے بہت خوشی ہورہی ہے۔روز
وہ ڈرائیور ہوتا ہے صابر سیٹھ کا، ہر وقت ہوشیار،معلوم نہیں کب سیٹھ جی کیا کہہ دیں،کیا
پوچھ لیں، ایک آنکھ بیک ویو میرر پر ہی رکھنی پڑتی ہے۔لیکن آج تو وہ گاڑی کا مالک بنا
بیٹھا ہے کیوں کہ سیٹھ جی نے اسے خوداجازت دی ہے۔
”شمو!تمہاری بیوی بچوں کوبھی گاڑی میں گھومنے
کا شوق ہے۔“
”اسلئے تمہیں گاڑی چاہئے۔ایسا تم نے ایک
بار کہا تھا۔“
”تو لے جاؤ۔“
”کل تمہاری چھٹی ہے۔میری گاڑی لے جاؤ اور
بچوں کو کہیں گھما لاؤ۔“ سیٹھ صاحب نے پانچ سو کا نوٹ اور چابی جیب سے نکال کر شمو
کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”جی شکریہ!“ کہتے ہوئے شمو نے چابی اور پیسے
لے لئے۔
”سیٹھ جی کتنے اچھے ہیں۔“ شمو دل ہی دل میں
خوش ہورہا تھا اور سیٹھ جی کو دعائیں بھی دے رہا تھا۔
”سنو!کل دس بجے تک تم اور بچے سب تیار رہنا۔گھومنے
جانا ہے۔“شمو نے اپنی بیوی قمرن سے کہا۔
ایک دن کے لئے ہی سہی،آج شمو زندگی کے اس
احساس کو حاصل کرنے جارہا تھا جو اسکا خواب تھا۔ اسکے اندر کا سہما سا معمولی آدمی
جانے کہاں غائب سا ہوگیا ہے۔
آج وہ سفید کپڑوں میں ملبوس، گاڑی میں بیٹھا
گنگنا رہا ہے۔گاڑی میں لگے اسٹیریو پر کوئی پرانا گانا بج رہا ہے۔
”دس بجنے والے ہیں، اب تک سب تیار ہوچکے
ہونگے۔“ایک ادا سے اس نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی اور مسکراتے ہوئے بڑ بڑایا۔
پانچ منٹ میں وہ اپنی گلی میں موجود تھا۔
گلی میں کھیلتے بچوں نے شور مچاتے ہوئے گاڑی کو گھیر لیا۔ہو ہو کا شور سنتے ہی شمو
کے بچے ببلو، پپو اور جوہی باہر نکل آئے وہ ابھی تیار ہورہے ہیں۔
”امی! پاپا آگئے ہیں۔“ تینوں بچوں نے ایک
ساتھ آواز لگائی۔
پپوابھی بھی میلا اسکول یونیفارم پہنا گھوم
رہا ہے، ببلو نے پرانا جینس اور ٹی شرٹ ڈٹایا ہوا ہے۔
”ہٹو ہماری کار ہے۔“
”آہا کتنی اچھی ہے پاپا کی کار۔“ پپو نے
لڑکوں کو دھکا دیتے ہوئے کہا۔
تینوں بچے گھر میں شورمچاتے ہوئے داخل ہوئے۔وہ
آپس میں لڑرہے تھے۔
”اس عورت کو عقل نہیں ہے۔ابھی تک بچوں کو
تیار نہیں کیا۔“شمو بڑبڑاتے ہوئے گھر میں داخل ہوا۔
”یہ کیا؟ ابھی تک نہ خود تیار ہوئی نہ ہی
بچوں کو تیار کیا۔“
”اب کیا میں سارا دن اسی طرح دروازہ پر کھڑا
رہوں؟“ شمو نے غصیلے لہجے میں کہا۔
”پانی ہی نہیں آیا آج نل میں۔ابھی تک انتظار
میں بیٹھی تھی۔دو بالٹی پانی شنوکے گھر سے لائی ہوں۔“قمرن نے غسل خانہ سے ہی جواب دیا۔
شمواجنبی کی طرح جیب میں ہاتھ ڈالے ادھر
ادھرخاموش کھڑا رہا۔
”پاپا میں تیار ہوگیا ہوں،گاڑی میں بیٹھ
جاؤں؟“ ببلونے شمو سے لپٹتے ہوئے پوچھا۔
پپو اور جوہی ابھی بھی کنگھی کے لئے لڑائی
میں مصروف ہیں۔شمو کا موڈ خراب ہورہا تھا اسے لگا بچے صاف ستھرے کپڑے پہنے بالکل تیار
ہونگے۔لیکن۔۔۔
شموگھر سے باہر نکل آیا۔گلی کے بچے اب بھی
گاڑی کو گھیرے کھڑے ہیں، کوئی شیشے سے اندر جھانکنے کی کوشش کر رہا ہے، کوئی آئینہ
میں دیکھ سنورنے کی ایکٹنگ کر رہا ہے۔
تھوڑی دیرکے انتظار کے بعد قمرن اور تینوں
بچے ایکساتھ باہر نکلے۔پپو نے شرٹ اور ہاف پنٹ پہنی ہوئی ہے جو ایک دوسرے سے بالکل
میچ نہیں کر تے۔جوہی نے خوب ٹائٹ چوٹی باندھی ہوئی ہے جس سے اسکا چہرہ عجیب سا کھنچا
ہوا محسوس ہورہا ہے۔قمرن نے اپنی سب سے بھڑکیلی ساڑی پہنی ہوئی ہے، تیل میں چپڑے بال
اور بھڑکیلے رنگ کی لالی سے اپنے ہونٹوں کو سجا رکھا ہے۔یہ سب دیکھ کر شمو کی حالت
غیر سی ہوگئی ہے۔لہجے اور مزاج میں کسی قدر کڑواہٹ گھل سی گئی ہے۔اس کے باوجود بھی
اس نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
گاڑی کے قریب آتے ہی تینوں بچوں میں دھکا
مکی شروع ہوگئی۔پہلے بیٹھنے کے لئے زور آزمائی کررہے ہیں، گلی کے بچے اب بھی گاڑی کو
گھیرے کھڑے ہیں۔
”چلو دور ہٹو!“ شمو نے غصیلے لہجے میں بچوں
سے کہا۔
دروازہ کھلتے ہی تینوں بچے اپنی اپنی سیٹ
پکڑنے دوڑ پڑے۔قمرن نے ایک ادا سے اپنی ساڑی کا پلو سنبھالا اور سامنے والی سیٹ پر
براجمان ہوگئی۔
گاڑی شروع ہوتے ہی بچوں کی شرارت شروع ہوگئی
اور لگے ایک دوسرے کو چھیڑنے۔شمو نے اچانک بریک لگائی اور قمرن کی طرف جھک کر دروازہ
ٹھیک سے بند کیا۔ اسکا موڈ ابھی بھی ٹھیک نہیں ہوا تھا۔اسے لگاتار اس بات کی کوفت ہورہی
ہے کہ ناحق ہی سیٹھ جی کا احسان لیا۔یہ بچے اس لائق نہیں ہے کہ گاڑیوں میں گھوم سکیں۔
کبھی اس کا بھی خواب تھا بڑا آدمی بننے
کا، امیروں کی طرح اچھے کپڑے پہنے ہوٹلوں میں جانے کا، شاپنگ کرنے کا۔اس کی خواہش ہوا
کرتی تھی کہ بیوی خوبصورت ہو، بچے تمیز دار، فراٹے سے انگریزی بولنے والے ہوں۔شمو کا
بچپن غربت کے ماحول میں گزرا تھا۔سہولیات تو دورپڑھائی بھی پوری نہیں کرپایا تھا۔پیٹ
پالنے کے لئے دسیوں طرح کے دھندے اس نے کئے۔معمولی سی عورت سے شادی اور پھر یہ بچے۔چاہ
کر بھی ان کو اپنی پسند کی زندگی نہیں دے پایا تھا۔
کچھ عرصے سے صابر سیٹھ کی کار چلانے کا
کام مل گیا۔خواہش اور حسرتیں پھر زور مارنے لگیں اورشمونے سیٹھ صاحب سے ایک دن کے لئے
گاڑی کا مطالبہ کردیا۔
اس کے خیالوں کا تسلسل ٹوٹ گیا، پچھلی سیٹ
سے پپواسکے کاندھے پر اچک کر بیٹھ گیا۔
”پاپا پاپا، گانا بجاؤ ناں۔“ پپو نے پیار
بھرے لہجے میں کہا۔
”نہیں۔“شمو کا موڈ خراب تھا اس لئے اس نے
صاف انکار کردیا۔
”گانا بجا دوناں۔“قمرن نے پپو کی تائید کی۔
شمو نے تیز نظروں سے قمرن کی طرف دیکھا
اور ایک جھٹکے سے میوزک سسٹم آن کردیا۔
بچے گانے کی دھن پر اچھلنے کودنے لگے۔
”چین سے نہیں بیٹھ سکتے کیا؟“ شمو نے ڈپٹتے
ہوئے کہا۔دراصل وہ ابھی اس موڈ میں نہیں ہے کہ ذرا بھی شورہو،وہ اپنے خیالوں میں ہی
کھویا رہنا چاہتا ہے۔
قمرن سب دیکھ رہی ہے۔وہ محسوس کر رہی ہے کہ آج کا
شمو روز والا شمو نہیں ہے۔ بار بار اسے اور بچوں کو ایسے ڈپٹ رہا ہے جیسے انہیں آج
سے پہلے کبھی اس روپ میں دیکھا ہی نہ ہو۔کیااسے معلوم نہیں اس کے بچوں کے پاس کیسے
کپڑے ہیں پھر کیوں یہ سوچ سوچ کر اپنا خون جلا رہا ہے کہ اس کے بچے سیٹھ کے بچوں کی
طرح کیوں نہیں ہیں۔قمرن بے دلی سے سڑک کی طرف دیکھنے لگی۔
گاڑی چڑیا گھر کے سامنے رکی۔ بچے اب بھی
سہمے ہوئے ہیں۔وہ شمو سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔اسنے دروازے کھولے تو بچے خاموشی سے نیچے
اتر آئے۔شمو کو محسوس ہونے لگا کہ اس سے کچھ زیادتی ہوگئی ہے۔اس نے گاڑی پارک کی، ٹکٹ لئے اور بچوں کو گدگدی کرکے پارک میں دوڑا دیا۔بچے
جانوروں کے پنجروں کی طرف چل دیئے۔شمو اور قمرن دھیرے دھیرے چلنے لگے۔شمو نے گاگل آنکھوں
پر چڑھا لیا، دونوں میں سے کوئی کچھ نہیں بول رہا ہے۔ آج چھٹی کا دن نہیں ہونے کے باوجود
بھی چڑیا گھر میں چہل پہل ہے۔بچے تھک جاتے تو رک کر دونوں کا انتظار کرنے لگتے۔پیاس
لگنے پر شمو نے کولڈرنک پلایا۔چڑیا گھردیکھنے کے بعد گارڈن لے گیا۔اب بچوں کا موڈ پھر
سے شرارتی ہوچکا تھا۔وہ تینوں دوڑنے بھاگنے میں مصروف تھے۔ جوہی کا پیر فراک کی لٹکتی
ہوئی بیلٹ میں پھنس گیاوہ گر پڑی، گھٹنے اور کہنیاں بری طرح چھل گئے فراک خراب ہوئی
سو الگ۔
”ڈھنگ سے چل بھی نہیں سکتے؟“
”جب دیکھو گندے بچوں کی طرح کودتے پھاندتے
رہیں گے۔“بچوں کو سنبھالنے کے بجائے شمو بڑبڑانے لگا۔
”اب یہ تو نہیں ہوگا کہ بچی گر گئی ہے،اسکو
سنبھالتے، پیار کرتے، بس پیچھے پڑے ہو لٹھ لے کر۔“ قمرن نے فوراً جوہی کو سنبھالااور
شمو پر برس پڑی۔اس نے جوہی کوپیار سے اٹھایا اسکی چوٹ کو سہلایا، رومال سے صاف کیا۔
شمو جوہی کے قریب ہی تھاجب وہ گری لیکن اپنا سفید سوٹ خراب ہونے کے ڈر سے اسے نہیں
اٹھایا۔
گارڈن سے نکل کر اب قافلہ تالاب چوپاٹی
کی طرف بڑھنے لگا۔ تینوں بچے بھوک سے نڈھال ہیں۔ سامنے اسٹال سجے ہوئے ہیں لیکن بچوں
کی ہمت نہیں ہورہی ہے کہ کچھ مانگیں۔ بس للچائی نظروں سے کھانے پینے کا سامان دیکھتے
رہے۔شمو آگے آگے بے فکرچلاجارہا۔ صبح جب سے چلے ہیں بچوں نے ایک کولڈرنک پیا ہے۔یہاں
بھی شمو کوقطعی دھیان نہیں کہ بچوں کو کچھ کھلادے۔
”کل تک تو اچھا تھا، کتنا جذباتی تھا بچوں
کو گھمانے کے لئے اور آج صبح سے ہی میرے اور بچوں کے پیچھے پڑا ہے۔“ قمرن سمجھ نہیں
پارہی تھی کہ شمو ایسا سلوک کیوں کر رہا ہے۔
”کپڑے گندے کیوں ہیں؟“
”ڈھنگ سے تیار کیوں نہیں ہوئے؟“
”طریقہ نہیں ہے کچھ کھانے کا۔ جیسے کچھ دیکھا
ہی نہیں ہے۔“
”ندیدے کہیں کے۔“
”ارے تم نے زندگی میں کچھ دکھایا ہوتا تو
دیکھتے۔“
”کبھی ایک جوڑے کے علاوہ دوسرا ڈھنگ کا جوڑا
نصیب نہیں ہوااور کہتا ہے کپڑے ڈھنگ سے کیوں نہیں پہنے؟“
”میں ہی جانتی ہوں جیسے تیسے عزت ڈھانپے
ہوئے ہوں۔“
”گھر کی گاڑی کھینچ رہی ہوں۔“
”ٹھیک ہے ایک دن کے لئے سیٹھ صاحب نے تمہیں
گاڑی دے دی ہے، ہمیں گھمانے پھرانے کے لئے لیکن اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ تم لاٹ صاحب
ہوگئے گاڑی چلاتے چلاتے اور ہم پھٹی چر رہ گئے۔“ قمرن کے دل میں ایک ہی سیکنڈ میں نہ
جانے کتنے سوال اور شکوے کوند گئے۔
”اب ڈرائیور کے بچے سیٹھ کے بچے تو نہیں
ہوسکتے ناں۔“
”پہلی بار گھومنے نکلے ہیں۔کچھ بگڑ گئے تو
کیا۔“
”بیکار ہی آئے۔۔۔ اگر پہلے پتہ ہوتاکہ شمو
یہ حال کرے گاتو۔۔۔“نہ جانے کیا کیا گمان میں کھوئی رہی قمرن۔
”آج پہلی بار گاڑی لائے ہیں اور رعب دنیا
بھر کا مار رہے ہیں۔“
”اب کبھی نہیں بیٹھیں گے پاپا کی گاڑی میں۔“تینوں
بچے روآنسے بیٹھے اپنے اپنے خیال کا اظہار کررہے ہیں۔
گاڑی چلتے چلتے ایک خوبصورت ہوٹل کے سامنے رک گئی۔سب حیران رہ گئے۔ شاید
شمو دن بھر کی کسر یہیں پوری کرنا چاہتا ہے۔
”واؤ، کتنی خوبصورت جگہ ہے!“ بچوں نے حیرت
زدہ لہجہ میں ایک ساتھ کہا۔
قمرن نارمل نظر آنے کی بھرپور کوشش کرنے
لگی جیسے یہاں آنا انکے لئے کوئی نئی بات نہیں۔شموخود ایسا ظاہر کر نے کی کوشش کررہا
ہے جیسے یہاں اسکا روزکا آنا جانا ہو،لیکن صاف لگ رہا ہے وہ خود پہلی بار یہاں آیا
ہے۔آس پاس کے ماحول کو دیکھ کر ببلو، پپو اور جوہی آپس میں کھسر پھسر کر رہے ہیں اور
ماحول کا جائزہ لے رہے ہیں۔
مینو دیکھ کر شمو چکراگیا۔ چیزوں کے دام
اسکی امیدوں سے کہیں زیادہ ہے۔دوسری حیرانی یہ کہ اسے سمجھ میں ہی نہیں آرہا ہے کہ
چیزیں کیا ہے؟ کبھی نام بھی نہیں سنا تھامینو کے پکوان کا۔
”بولئے صاحب کیا آرڈر ہے؟“ اسٹورٹ نے ادب
سے پوچھا۔
”ابھی رکو۔“ شمو نے اسے ٹرخانے کی غرض سے
کہا۔
”یہاں سب چیزیں بڑی مہنگی ہیں۔کیا کریں؟“
شمو نے قمرن سے سرگوشیوں میں کہا۔
”دوتین دال سبزی بلوالو۔ سب مل بانٹ کر کھالیں
گے۔“ قمرن نے مشورہ دیا۔
شمو نے ہکلاتے ہوئے بڑی ہمت سے سب سے کم
دام والی سبزی کا آرڈر دیا۔ ویٹر نے آرڈر لکھ کر ٹیبل پر چھری کانٹے اور چمچ سجا کر
چلا گیا۔تینوں بچے چھری کانٹے اور چمچوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہے ہیں۔ انہیں سمجھ میں
نہیں آرہا کہ ان سے کھاناکس طرح کھائیں گے۔شمو خود کوالجھن میں محسوس کررہا ہے۔ایر
کنڈیشنڈ ہوٹل میں بھی وہ بار بار پسینہ پونچھ رہا ہے اور بار بار یہی کہہ رہا ہے کہ
”اف کتنی گرمی ہے۔“
کھانے کے بعد جب ویٹر فنگر باؤل لایا تو
کسی کے سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کا کیا کرنا ہے۔ گنگنا پانی اوراسمیں تیرتے لیموں کے
ٹکڑے، سب نے شمو کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا، وہ خود الجھا ہوا ہے۔اس نے کچھ سوچتے
ہوئے لیموں نچوڑا اورغٹاغٹ پانی پی گیا۔ببلو اور جوہی بھی یہی کرنے والے تھے تبھی پاس
کھڑے ویٹر نے بتایا ”یہ پانی پینے کے لئے نہیں بلکہ انگلیوں پر لگی چکنائی نکالنے اور
دھونے کے لئے ہے۔“
شمو قدرے ندامت سے جھک گیا۔کسی نے اس کی
وقعت بتاکرذلیل کردیا ہے۔اس نے بل لانے کے لئے کہا۔ادھر پپو کے رونے سے سب کا موڈ خراب
ہوگیا ہے کیوں کہ اس نے آئس کریم کھانے کی خواہش ظاہر کی توبلاتاخیر شمو نے ایک چپت
لگا دی۔
”ایسے ہوٹل میں کیوں لائے؟“
”جہاں کھانے میں ذرا بھی مزا نہ آئے اور
بل زبردست نکلے۔“قمرن نے شکایت کی۔
”جیسے میں یہ سب اپنے لئے کر رہا ہوں۔“
”تم لوگوں کو گھمانے پھرانے کے لئے سیٹھ
کا احسان لیا ہے۔“ شمو نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔
”ہمیں پتہ ہوتاکہ اس طرح گاڑی کا رعب ڈالوگے
توہم آتے ہی نہیں۔“
”اگر ایک آئس کریم دلوادیتے بچے کو تو کیا
فرق پڑجاتا۔“قمرن پپو کا فیور لیتی ہوئی بڑ بڑائی۔
”ہاں دلوادیتا آئس کریم، لیکن کتنی مہنگی
تھی۔“
”باہر آکر مانگ لیتا تودلوابھی دیتا، وہ
تو وہیں شورکرنے لگا بے صبروں کی طرح۔کوئی دیکھے گا تو کیا سمجھے گا؟“ شمونے جواب دیا۔
”یہی سمجھے گا کہ کوئی لاٹ صاب اپنے ڈرائیور
کے نالائق بچوں کو گھمارہے ہیں شہر میں۔“
”اگر اتنا ہی شوق تھا کسی میم اور فرفرے
بچوں کا تو کر لیتے شادی اپنے سیٹھ کی کسی بیٹی سے۔“
”ہماری جان کے پیچھے کیوں پڑے ہو؟“
”جاہل ہیں ہم لوگ، ہمیں توکپڑے پہننے کا
ڈھنگ بھی نہیں۔“
”اب چلو گھر واپس ہمیں کہیں نہیں جانا۔“
قمرن کا پارہ چڑھ گیا۔
بات مزید طول پکڑے شمو نے اسی میں خیریت
سمجھی کہ انہیں گھر پر چھوڑے اور گاڑی سیٹھ صاحب کے حوالے کردے۔ ابھی تو دوپہر کے تین
ہی بجے ہیں اور اس نے گاڑی شام سات آٹھ بجے تک لوٹانے کے لئے کہا ہے۔
”کیا بات ہے؟ اتنی جلدی لوٹ آئے۔“
”اچھی طرح گھما پھرا دیا ناں بچوں کو؟“ سیٹھ
صاحب شمو کو دیکھ کر چونک گئے۔
”ایسا کرو، گھر چلے جاؤ، میم صاحب کے رشتہ
دار آئے ہوئے ہیں بچوں کے ساتھ، سب لو گ انکی گاڑی میں نہیں آپائینگے، تم اپنی گاڑی لے جاؤ اور وہ جہاں کہیں
گھما لاؤ سب کو،میں فون کردیتا ہوں۔“ اس سے پہلے کہ شمو کچھ کہہ پاتا، اچانک جیسے سیٹھ
صاحب کو کچھ یاد آیا۔
”ٹھیک ہے۔“کہہ کر شموکیبن سے باہر آیا، وہ
پھر ڈرائیور بن چکا ہے۔ موڈ اب بھی خراب ہے۔
سیٹھ صاحب کے گھر پہنچا تو کوئی بھی تیار
نہ تھا وہاں،اپنے آنے کی خبر دے کر شمو واپس گاڑی میں آکر بیٹھ گیا۔ تقریباًایک گھنٹہ
بعد سب لوگ نیچے آئے، عورتیں، مرد اور بچے شاید سات آٹھ لوگ تھے۔
”السلام علیکم۔“ شمو نے زو ر سے سلام کیا
جس کا کوئی جواب نہیں ملا۔
بڑی گاڑی میم صاحب نے خود نکالی جسمیں ان
کے مہمان بیٹھے اور سارے بچے شمو کی گاڑی کی طرف لپکے ساتھ ہی ان کے چاچا بھی۔ دروازے
دھڑادھڑ کھولے اور کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھنے کے لئے جھگڑنے لگے۔ چاچا نے کسی طرح سمجھوتا
کروایاجو بچے جاتے وقت کھڑکی کے پاس بیٹھیں گے وہ واپسی میں وہاں نہیں بیٹھیں گے۔شمو
اپنی سیٹ سے نیچے اتر آیا، اس نے دیکھا سبھی بچوں نے رنگ برنگے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔
کسی کی ہاف پینٹ کہیں جارہی ہے تو کسی کی ٹی شرٹ جھول رہی ہے۔شمو کنارے کھڑا سب دیکھ
رہا ہے۔ اچانک اسکی نگاہ گاڑی کے اندر گئی، بچوں نے گندے جوتے چپل سے سیٹ بری طرح خراب
کردی ہے۔اس کا موڈ پھر خراب ہونے لگا۔
”چلو ڈرائیور!“ ایک آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی۔وہ
چپ چاپ اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا اور بڑی گاڑی آگے نکلنے کا انتظار کرنے لگا۔
”پہلے گارڈن چلو۔“چاچا اسکے برابر والی سیٹ
پر بیٹھ گئے۔ بچے شور مچائے ہوئے ہیں۔
”ڈرائیور! اسٹیریو بجاؤ۔“ گاڑی چلتے ہی کرخت
لہجے میں ایک بچے نے حکم صادر کیا۔ شمو نے پیچھے مڑ کر دیکھا، حکم دینے والا لڑکا پپو
کا ہی ہم عمر رہا ہوگا۔ اچانک اسے پپو کا جملہ یاد آیا کیسے پیا ر سے کہہ رہا تھا،”پاپا
پاپا، گانا بجاؤ ناں۔“
”سنا نہیں ڈرائیور، اسٹیریو چلاؤ۔“لڑکے کی
تلخ آواز دوبارہ گونجی، شمو نے چپ چاپ اسٹیریو چلا دیا۔ سبھی بچے شور مچانے لگے۔ اس
نے کنکھیوں سے چاچا کی طرف دیکھا ان پر بچے کے لہجے کا ذرا بھی اثر نہیں ہوا۔گارڈن
تک پہنچتے پہنچتے بچوں نے اس کی ناک میں دم کردیا، بار بار اسکا دل چاہ رہا ہے ایک
ایک بدتمیز بچے کی پکڑ کر دھنائی کردے، ماں باپ نے کچھ بھی نہیں سکھایا انہیں۔اس نے
خود کو قابو کیا۔گارڈن پہنچتے ہی سارے بچے کودتے پھاندتے بھاگ نکلے، میم صاحب اور انکے
مہمان انکے پیچھے ٹہلتے ہوئے نکلے۔
پچھلی سیٹ بہت گندی کردی تھی بچوں نے وہ
ایک کپڑا گیلا کرکے لایا اور رگڑ رگڑ کر سیٹیں پونچھنے لگا، پھر اسے یاد آیا، اسکے
اپنے بچے بھی توتین چار گھنٹے بیٹھے رہے اسی گاڑی میں تب تو ایک داغ بھی نہیں لگا تھا
سیٹوں پر۔ببلو کو سیٹ پر چپل رکھنے پر بھی ڈانٹا تھا اس نے۔ سیٹ صاف کرتے وقت اس نے
سوچا ناحق ہی اتنی محنت کر رہا ہے، تھوڑی دیر میں بچوں نے پھر یہی حشر کردینا ہے۔
گارڈن سے نکلتے وقت شمونے دیکھاایک بچے کے کپڑے
بری طرح گندے ہیں اور گٹھنے چھلے ہوئے ہیں،اسے چاچا نے گود میں اٹھا رکھا ہے اور بار
بار بہلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گاڑیوں میں سوار ہونے سے پہلے سارا قافلہ ریسٹورنٹ
کی طرف بڑھ گیا۔وہاں سے نکل کر سب لوگ تالاب چوپاٹی کی طرف چل پڑے۔ اس بار ایک لڑکی
جو مہمانوں کے ساتھ دوسری گاڑی میں تھی وہ اب شمو کی گاڑی میں بیٹھی ہے، بڑے عجیب سے
ہیں اسکے کپڑے، گٹھنوں تک لٹکی ہوئی ٹی شرٹ، میلی کچیلی جینز، گندی ہوائی چپل۔وہ چیونگ
گم بڑے ہی گندے انداز میں چبا رہی ہے۔شمو کو بڑی الجھن ہورہی ہے۔ اسے بار بار یہ خیال
ستا رہاہے کہ لڑکی چیونگ گم کہیں گاڑی میں نہ چپکادے۔ شمو کا شک صحیح نکلا،چوپاٹی پر
اترتے وقت لڑکی کے منہ میں چیونگ گم نہیں ہے۔ سب کے دور جاتے ہی اس نے فوراً گاڑی کی
پچھلی سیٹ کو بغوردیکھا، چیونگ گم دروازے کی فوم پر ٹکلی سا چپکا ہوا ہے، شمو کے تن
بدن میں آگ لگ گئی۔ خیال آیا اینٹ کا ٹکڑا اٹھا کر اس کے سر پر دے مارے۔
”یہ بچے تو سچ مچ میرے بچوں سے بھی گئے گزرے
ہیں۔“شمواپنے آپ میں ہی بڑبڑایا۔
”میں فالتو میں ہی سارا دن اپنے بچوں کے
پیچھے پڑا رہا کہ انہیں طور طریقے نہیں ہے۔“شمو خود سے شرمندگی محسوس کرنے لگا۔شیشہ
چڑھاکربالکل اداس اپنی سیٹ پر بیٹھ گیااور طے کیا کہ گھر جاتے وقت بچوں کے لئے کھانے
کی چیزیں اور بہت سارے کھلونے لے جائے گا۔
٭٭٭
پرویز احمد وکیل احمد
پیلی حویلی چوک، کامٹی 441001،ضلع ناگپور (مہاراشٹر)
فون: 9595559073
email:
parvez.emedia@gmail.com
کمنٹ کریں