
ذیشان صاحب نے نازنین کے لئے ایک رشتہ لیکر آئے لڑکے کا نام ناوید تھا ، ناوید ایک بہترین قلمکار تھا اور جہیز جیسی لعنت کا تو سخت دشمن تھا اسکے بہت سارے مضامین جہیزلینے اور دینے والوں کے خلاف مقامی اخباروں اور رسالوں میں شائع ہو چکے تھے جس وجہ کر علاقے کے لوگ ناوید صاحب کو اچھی طرح سے جانتے تھے اور دل سےبہت عزت بھی کرتے تھے انھیں سب وجہ کر نازنین کے والد صاحب کو یہ لڑکا پسند ہو گیا ، نازنین کے والد صاحب نے ذیشان صاحب سے رشتے کی بات آگے بڑھانے کو کہا ۔
نازنین ایک مڈل کلاس اور لوور کلاس کے بیچ والی فیملی سے تعلق رکھتی تھی پڑھنے لکھنے میں بہت زیادہ ذہین تھی لیکن غریبی کی وجہ کر زیادہ پڑھائی نہ کرسکی انٹر پاس کرنے کے بعد اسے پڑھائی روکنی پڑی اسکی دو وجہیں تھی اول تو غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھیں دوسرا آس پاس کوئی ڈگری کالج بھی نہیں تھا ۔ جو ڈگری کالج سب سے نزدیک تھا وہاں جانے کے لئے ٹرین سے ایک گھنٹے کا سفر کرنا پڑتا تھا اور نازنین کے گھر والوں کی مالی حالت اتنی اچھی تھی نہیں جس سے وہ روزانہ کالج آ جا سکے ، نازنین کے گھر میں نازنین کے علاوہ اسکے والدین اور دو بھائی بھی رہتے تھے دونوں بھائی ابھی بہت ہی کم عمر کے تھے ایک بھائی پانچویں درجہ کا طالب علم تھا تو دوسرا بھائی ساتویں درجہ کا طالب علم تھا ، والد صاحب بازار میں سبزیاں بیچتے تھے ،جس سے گھر کا خرچ چلتا تھا ، ماں گھر کا کام سنبھالتی تھی جسکی مدد نازنین کرتی تھی ۔
وقت کا پہیہ چلتا رہا نازنین اب 20 سال کی ہو گئی تھی ، جب لوور کلاس فیملی کے لڑکیوں کی عمر 18 سے زائد ہو جاتی ہے تو انکے گھر والوں کو صرف ایک ہی بات ستاتی رہتی ہےکہ اب اپنی لڑکی کی شادی کیسے کروں گا ۔ ہمارے معاشرے میں ایسے ایسے جہیز کے لالچی درندے بیٹھے ہوئے ہیں کی جس سے ڈر کر تو کچھ والدین لڑکیوں کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی اسکے جہیز کے لئے روپئے جمع کرنے لگتے ہیں، ایک غریب والدین تاعمر اپنی لڑکی کی شادی کے لئے روپئے جمع کرتا ہے شادی کے موقع پر بے انتہا قرض بھی لے لیتا ہے، لیکن جب لڑکے والے بارات لیکر آتے ہیں تو وہ کچھ نہ کچھ کمیاں نکال ہی دیتے ہیں کبھی بارات کے آؤ بھگت میں کمی تو کبھی من مطابق جہیز نہیں ملنے کی کمی ، پھر وہ غریب باپ (جو زندگی بھر اپنا پیٹ کاٹ کرصرف اس دن کے لئے روپئے بچاتے آیا تھا اور شادی سے ٹھیک پہلے بے انتہا قرض بھی لے لیا تھا) کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ یہی سب باتیں سوچ سوچ کر نازنین کے والد صاحب اکثر پریشان رہتے تھے اور نازنین بھی اپنے والد کی اس پریشانی کو اچھے سے سمجھتی تھی لیکن وہ اس ظالم زمانہ کے سامنے کر بھی کیا سکتی تھی سوائے اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلانے کےکیونکہ اسے معلوم تھا اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ، اکثر وہ اللہ کے سامنے گڑگڑایا کر کہتی رہتی تھی کہ یا اللہ جب تم نے جہیز کے لالچی جیسے ظالم لوگ بنائے تو پھر ہم لوگوں کو غریب کیوں بنایا کیوں میرے والد صاحب اتنے پریشان رہتے ہیں کیا ہم لوگوں کو خوشی –خوشی زندگی بسر کرنے کا حق نہیں ہے نیز غریبیی کے وجہ سے جو بھی تکلیفیں اٹھائیں تھی سب اللہ کے سامنے گڑگڑا کر بولتی چلی گئی ۔
لیکن کہتے ہیں نہ کہ اللہ پہلے اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے ،اللہ اپنے بندوں کہ مصیبت میں ڈال کر یہ دیکھتا ہے کہ میرا بندہ کہاں تک میرا نام لیتے ہوئے مصیبت کا سامنا کرتا ہے ،آجکل تو ایسا ہوتا ہےکہ ذرا سا مصیبت کیا آئی اللہ کو ہی کوسنا شروع کر دیتے ہیں، پتہ نہیں اللہ کب تک میرا امتحان لےگا ، لگتا ہے اللہ نے سارا مصیبت میرے اوپر ہی ڈال دیا ہے ، ۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ الفاظ ہمارے زبان سے نکلنے لگتے ہیں ، خیر جو بھی ہو ہمیں ہمیشہ اللہ پر یقین رکھنا چاہئےاللہ جو بھی کرتا ہے اچھا کرتا ہے ۔
دو دنوں کےبعد پروس کے ہی ذیشان صاحب نے نازنین کے لئے ایک رشتہ لیکر آئے لڑکے کا نام ناوید تھا ، ناوید ایک بہترین قلمکار تھا اور جہیز جیسی لعنت کا تو سخت دشمن تھا اسکے بہت سارے مضامین جہیزلینے اور دینے والوں کے خلاف مقامی اخباروں اور رسالوں میں شائع ہو چکے تھے جس وجہ کر علاقے کے لوگ ناوید صاحب کو اچھی طرح سے جانتے تھے اور دل سےبہت عزت بھی کرتے تھے انھیں سب وجہ کر نازنین کے والد صاحب کو یہ لڑکا پسند ہو گیا ، نازنین کے والد صاحب نے ذیشان صاحب سے رشتے کی بات آگے بڑھانے کو کہا ۔ دونون طرف سے بات کرنے کے بعد ذیشان صاحب نے نازنین کے ابو سے کہا کہ لڑکے والوں نے کہا ہے کہ پہلے آپ لڑکے کو دیکھ لیں اگر آپکو لڑکا پسند آجائیگا تب ہم لوگ لڑکی دیکھیں گے اس بات پر نازنین کے والد صاحب نے بھی ہامی بھر دی اگلے ہی دن نازنین کے والد اپنے رشتہ داروں کے ساتھ لڑکا دیکھنے ناوید کے گھر پہنچ گئے ، کھان پان اور لڑکے کو دیکھنے کے بعد نازنین کے والد صاحب نے کہا کہ لڑکا تو ہمیں پسند ہے اور دبے لفظوں میں یہ بھی پوچھ لیے آپ لوگوں کی کچھ مانگ کیونکہ وہ جانتے تھے کی جو جہیز کے خلاف اتنا لکھتا ہے وہ تو کچھ مانگ کریگا ہی نہیں اس لئے دبے لفظوں میں پوچھ ڈالے لیکن یہ کیا یہاں تو اسکے بالکل ہی خلاف ہوا ناوید صاحب نے اپنے جیب سے ایک بند لفافہ نکالتے ہوئے کہا ہاں میری بھی کچھ مانگیں ہیں جنہیں میں نے لکھ کر اس لفافے میں بند کر دیا ہےنازنین کے والد کے پیروں تلے زمین کھسک گئی وہ من ہی من سوچنے لگے آدمی کیسے اتنا بدل سکتا ہے جو آدمی شادی میں لین دین کے خلاف اتنا لکھتا ہو وہی آدمی اپنے شادی میں بھی مانگ کر رہا ہے وہ بھی کھلے طور پر نہیں لفاف میں بند کر کے تاکہ بولنے میں شرم نہ لگے یہ دیکھ کر انہیں ایک دھچکا سا لگا سوچنے لگے ناجانے اس دنیا میں کیسے کیسےلوگ موجود ہیں جس کے کھانے کے دانت کچھ اور دکھانے کے دانت کچھ اور ہیں ۔
خیر نازنین کے والد صاحب وہ لفافہ لیکر اپنی جیب میں رکھ لئے پھر کچھ دیر کی گفتگو میں انہوں نے یہ بھی پوچھ لیا کہ اب آپ لوگ کب آ رہے ہیں ، تو ناوید کے والد صاحب نے کہا کہ جب آپ کہہ دیں ہم آ جائیں گےدونوں نے ملکر 5 دنوں کے بعد کا دن مقرر کیا ۔
شام ہونے سے پہلے پہلے نازنین کے والد اپنے گھر کو پہنچ گئے ، گھر پہنچنے کے بعد جب انہوں نے دن کا سارا ماجرہ گھر والوں کو سنایا اور اپنے جیب سے وہ لفافہ نکال کر کھولنے لگے تو اتنے میں ہی نازنین نے آکر (جو شاید کہیں پر دن بھر کا پورا ماجرہ سن رہی تھی) وہ لفافہ چھین لیا اور بولنے لگی اسے ابھی مت کھولئے میں اسے پوری مجلس کے سامنے کھول کر دکھاوں گی اور ان جیسے جہیز کے لالچی کوجو بس نام کے لئے جہیز جیسی لعنت کے اوپر بڑے-بڑے مضمون لکھتے ہیں کو بے نقاب کروں گی ، جب تک اسکے والد کچھ کہتے تب تک وہ لفافہ لیکر وہاں پر سے جا چکی تھی۔
پانچ دنوں کے بعد آج وہ دن آ گیا تھا جب ناوید کے یہاں سے اسکے رشتہ دار نازنین کے یہاں آ رہے تھے ، ساری تیاریاں مکمل ہو چکی تھی نازنین کے پاس اسکے والد صاحب آئے اور بولے بیٹی ایک بار تو اس لفافہ کو کھول کر دیکھ لے آخر اس میں لکھا کیا کیا ہے ، اپنے والد کے اصرار کرنے کے بعد نازنین وہ لفافہ کھول کر پڑھنے کو تیار ہو گئی ۔ جلدی سے وہ لفافہ لیکر آئی اور اسے کھولی تو اس میں سے ایک کاغذ کا ٹکرا نکلا اس پر جو لکھا تھا اسے پڑھ کر نازنین کی آنکھیں فرط مشرت سے نم ہو گئی اور وہ کاغذ کا ٹکرا اپنے والد کو پکراتے ہوئے وہاں سے بھاگ گئی ، جب اسکے والد نے پڑھا تو اسکے بھی آنکھیں نم ہو گئی اور دل ہی دل سوچنے لگے نہ جانے ایسے نیک صفت لوگوں کے بارے میں میں نے کیا سے کیا سوچ لیا اور آنکھوں میں خوشی کے آنسوں بدستور جاری ہو گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفافہ کے اندر سے جو کاغذ کا ٹکرا نکلا تھا اس میں لکھا ہوا تھا ۔
میری جو بھی مانگیں ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1) لڑکی خوبصورت سے ذیادہ خوبصیرت ہونا چاہئے
2) لڑکی صوم صلوٰۃ کی پابند ہونی چاہئے
3) لڑکی گھر کو اچھے سے سنبھالنے والی ہونی چاہئے
4) لڑکی بات بات پر غصہ ہونے والی نہیں چاہئے
5) مجھے جہیز کے طور پر کچھ نہیں چاہئے صرف آپ کی بیٹی چاہئے
6) ہم اور سب کی طرح بارات لیکر نہیں آئیں گے ہم چند آدمیوں کے ساتھ آئیں گے اور آپکی بیٹی کو لے جائیں گے جو پوری طرح شریعت کے مطابق ہوگا اور آپ پر کوئی مالی بوجھ نہ پہنچے اسکا خاص خیال رکھیں۔
مجھے معلوم ہوا ہے مندرجہ بالا باتیں آپ میں اور آپ کی بیٹی میں پائی جاتی اس لئے یہ رشتہ مجھے منظور کہے اب میں آپ کے یہاں رسمی طور پر شادی کی تاریخ طئےکرنے آؤں گا.
محمد شمس الضحیٰ
کمنٹ کریں