
سَمینہ میں لپٹی ننھی سی پیونی
پوچھتا ہے بھنورا، تُو یہاں کہاں آ گئی؟
یہ سَمن اندام، یہ سَمن بر، یہ سِنان
گلابی پھول کے سے رخسار، سُرخ لب،
رات کی سیاہی جیسے بال
یہ چشمِ غزال
معطّر پہ تری ہو زر نثار
لخلخے سے تری روشن مدام
اِک نگہ سے تری عطا ہو دیدہ کور کو نور
بصارت میں لئے پھرتی ہے تُو سُرمہ طُور
دیکھ کے تُجھ کو رشک کرے
کائنات کا نُور
مگر
اے میری جاں؛ یہ رشک ترے واسطے اچھا نہیں
یہ وادی انساں کی وادی ہے اور تُو،
نمُو پاتی اِک ننھی سی پیونی
اِن کانپتے ہونٹوں نے ترے واسطے
اِک ذی جاہ خدا سے اِلتجا کی ہے
یہ پتیاں تیری ڈھال بنیں
پائے ہوس سے تجھے محفوظ رکھیں
تری عصمت و آبرو پہ آنچ نہ آئے
کہ تُو کھلکھلاتی، مسکراتی رہے
ترے خواب چاند تاروں سے لبریز ہوں
ہوا کے تخت پہ تُو سواری کرے
ترے دامن پہ غلطی کا ایک پتھر نہ گِرے
ہیر رانجھے کی رمز سے تُو عاری رہے
ترے نرم ہاتھوں میں رہے آسُودگی کا ہاتھ
کہ دہر بھی تُجھ سے ہنسنا سیکھے
یہ سوز و گداز، یہ رنج و الم، یہ درد و غم
اِن سے پسِ ماند تُو سربسر محبت بانٹنا سیکھے
تُو رُحمہ ہے میری، میرے قلب کا ٹکڑا
میری ننھی کلی، میرے باغ کی پیونی
نظم
کمنٹ کریں